Quran Text Translations Spread Documents

Muhammad Hussain Najafi


Change Log

New Urdu translation ur.najafi added
Fri, 19 Aug 2011 15:57:00 +0430
-0,0 +1,6236
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
جو (سب پر) بڑا مہربان (اور خاص بندوں پر) نہایت رحم کرنے والا ہے۔
جزا و سزا کے دن کا مالک (و مختار) ہے۔
(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
ہمیں سیدھے راستے کی (اور اس پر چلنے کی) ہدایت کرتا رہ۔
راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام و احسان کیا نہ ان کا (راستہ) جن پر تیرا قہر و غضب نازل ہوا۔ اور نہ ان کا جو گمراہ ہیں۔
الف۔ لام۔ میم۔
یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے۔
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے (سابقہ انبیاء) پر نازل کیا گیا۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فوز و فلاح پانے والے ہیں۔
(اے رسول) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ ان کے لیے برابر ہے۔ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ بہرحال وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
خدا نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور (آخرت میں) ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائے ہیں۔ حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔
خدا اور اہل ایمان کو دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دیتے۔ مگر انہیں اس کا (احساس) نہیں ہے۔
ان کے دلوں میں (نفاق) کی ایک بیماری ہے۔ سو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی ہے اور ان کے (مسلسل) جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اور جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
خبردار۔ درحقیقت وہی فساد پھیلانے والے ہیں۔ لیکن انہیں شعور نہیں ہے۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ خبردار۔ یہی لوگ خود بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔
اور یہ لوگ جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ان (مسلمانوں) سے تو ہم صرف مذاق کر رہے ہیں۔
خود اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور انہیں ڈھیل دے رہا ہے اور وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹک رہے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی۔ سو نہ تو ان کی تجارت سود مند ہوئی اور نہ ہی انہیں ہدایت نصیب ہوئی۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی۔ اور جب آگ نے اس کے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی (بینائی) سلب کر لی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
پس وہ ایسے بہرے، گونگے اور اندھے ہیں کہ اب (گمراہی سے راہِ ہدایت کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔
یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے) آسمان سے زور دار بارش برس رہی ہو جس میں تاریکیاں ہوں۔ اور گرج چمک بھی۔ اور وہ گرنے والی بجلیوں سے مرنے کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں۔ حالانکہ اللہ ہر طرف سے کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں کو اچک لے (انہیں خیرہ کر دے) جب بجلی ان کے لئے اجالا کرتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت و بصارت (سننے اور دیکھنے کی طاقت) کو زائل کر دیتا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت (پرستش) کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور انہیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
وہی (پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کا شامیانہ لگایا (اور اسے چھت بنایا) اور آسمان (بلندی) سے پانی برسایا۔ اس سے تمہاری روزی کے لئے کچھ پھل برآمد کئے سو جان بوجھ کر (کسی کو) اللہ کا ہمسر و شریک نہ بناؤ۔
اور جو کچھ (قرآن) ہم نے اپنے بندہ (خاص) پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس (کے کلام اللہ ہونے) میں شک ہے تو تم اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آؤ۔ اور اگر تم سچے ہو تو ایک اللہ کو چھوڑ کر اپنے سب حمایتیوں و ہم نواؤں کو بھی بلا لو۔
لیکن اگر تم یہ کام نہ کر سکو اور ہرگز ایسا نہیں کر سکوگے تو پھر (دوزخ کی) اس آگ سے ڈرو۔ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اور (اے رسول) ان لوگوں کو خوشخبری دے دو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ کہ ان کے لئے (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ جب بھی انہیں ان (باغات) سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ (اس کی صورت دیکھ کر) کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں (دنیا میں) کھانے کو مل چکا ہے۔ حالانکہ انہیں جو دیا گیا ہے وہ (صورت میں دنیا کے پھل سے) ملتا جلتا ہے (مگر ذائقہ الگ ہوگا) اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (بہشتوں) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
بے شک اللہ اس بات سے ہرگز نہیں شرماتا کہ (کسی مطلب کی وضاحت کے لئے) مچھر اور اس سے بھی بڑھ کر (کسی حقیر چیز) کی مثال بیان کرے۔ پس جو لوگ مؤمن ہیں وہ تو جانتے ہیں کہ یہ (مثال یقینا) حق ہے ان کے پروردگار کی طرف سے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسی مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے؟ اللہ ایسی مثال سے بہت سوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت کرتا ہے اور وہ گمراہی میں نہیں چھوڑتا مگر فاسقوں (نافرمانوں) کو۔
جو خدا سے مستحکم عہد و پیمان کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور جس (رشتہ) کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے ہیں۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں (دراصل) یہی لوگ ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔
بھلا تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ (بے جان) تھے تو اسی نے تمہیں زندہ کیا (جاندار بنایا) پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں زندگی دے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
وہی تو وہ (اللہ) ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کیا وہ سب کچھ جو زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی تو سات آسمان ہموار و استوار کر دیئے۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنائ کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس (پاکیزگی بیان) کرتے ہیں۔ فرمایا: یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اور اس (اللہ) نے آدم (ع) کو (تمام چیزوں کے) نام سکھائے۔ پھر ان کو (جن کے نام سکھائے تھے) فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو (کہ تم خلافت کے زیادہ حقدار ہو) تو مجھے ان اشخاص کے نام بتاؤ۔
انہوں نے کہا (ہر نقص و عیب سے) تیری ذات پاک ہے۔ ہمیں اس کے سوا جو تو نے ہمیں تعلیم دیا ہے (سکھایا ہے) اور مزید کچھ علم نہیں ہے۔ بے شک تو بڑا علم والا اور بڑی حکمت والا ہے۔
فرمایا: اے آدم تم ان کو ان کے نام بتاؤ۔ تو جب آدم نے ان (فرشتوں) کو ان کے نام بتا دیئے تو خدا نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے سب مخفی رازوں کو جانتا ہوں اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کر رہے ہو اور وہ بھی جو تم (اندرونِ دل) چھپائے ہوئے تھے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ ابلیس کے سوا سب سجدہ میں گر گئے۔ اس نے انکار و تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں بہشت میں رہو۔ اور اس سے جہاں سے تمہارا دل چاہے مزے اور فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ لیکن اس (مخصوص) درخت کے پاس نہ جانا (اس کا پھل نہ کھانا) ورنہ تم زیاں کاروں میں سے ہو جاؤگے۔
تب شیطان نے (اس درخت کے باعث) ان کے قدم پھسلائے۔ اور انہیں اس (عیش و آرام) سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا اب تم (زمین پر) اتر جاؤ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر۔ اور تمہارے لئے زمین میں ایک (خاص) وقت تک ٹھہرنے اور فائدہ ا ٹھانے کا سامان موجود ہے۔
اس کے بعد آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ دعا کے کلمات (حاصل کئے) تو اس نے ان کی توبہ قبول کی کیونکہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
ہم نے کہا تم سب اس سے اتر جاؤ۔ اس کے بعد اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے۔ تو ان کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
اور جو کفر اختیار کریں گے اور ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلائیں گے وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے۔ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اے بنی اسرائیل (اولادِ یعقوب) میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرو میں بھی تم سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کروں گا اور تم مجھ سے ڈرتے رہو۔
اور اس کتاب (قرآن) پر ایمان لاؤ جو میں نے (اب) نازل کی ہے۔ جو اس (توراۃ) کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے اولین منکر نہ بنو اور آیتوں کو (ان میں تحریف کرکے) تھوڑی قیمت (دنیوی مفاد) پر فروخت نہ کرو۔ اور مجھ ہی سے (میری نافرمانی سے) ڈرو۔
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو نہ چھپاؤ۔
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور (میری بارگاہ میں) رکوع کرنے (جھکنے) والوں کے ساتھ رکوع کرو (باجماعت نماز ادا کرو)۔
کیا تم دوسرے لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتابِ خدا کی تلاوت کرتے رہتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
اور (مشکلات و مصائب کے وقت) صبر (روزہ) اور نماز کے ذریعہ (خدا سے) مدد مانگو اور یہ (نماز یقینا بہت گراں ہے سوائے ان بندوں کے جو خشوع و خضوع رکھنے والے ہیں
اور (بارگاہِ خداوندی میں) عاجزی کرنے والے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کا سامنا کرنا ہے (اس کے حضور پیش ہونا ہے) اور (آخرکار) اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔
اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا جہاں کے لوگوں پر فضیلت دی۔
اور اس دن (قیامت) سے ڈرو جب کوئی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور نہ ہی کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہوگی۔ اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا۔ اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی تھی۔ جو تمہیں بدترین عذاب کا مزہ چکھاتے تھے (یعنی) تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں (بیٹیوں) کو (اپنی خدمت گزاری کے لئے) زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی بڑی سخت آزمائش تھی۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو شگافتہ کیا (اسے پھاڑ کر تمہارے لئے راستہ بنایا) اور تمہیں نجات دی اور تمہارے دیکھتے دیکھتے فرعونیوں کو غرق کر دیا۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے (توراۃ دینے کے لئے) چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر تم نے ان کے بعد گو سالہ (بچھڑے) کو (معبود) بنا لیا۔ جبکہ تم ظالم تھے۔
پھر ہم نے اس (ظلم) کے بعد بھی معاف کر دیا۔ تاکہ تم شکر گزار بنو۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرعونی (تم پر ظلم کر رہے تھے تو) ہم نے موسیٰ کو کتاب فرقان عطا کی تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب (موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا) اے میری قوم! یقینا تم نے گو سالہ کو (معبود) بنا کر اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ لہٰذا تم اپنے خالق کی بارگاہ میں (اس طرح) توبہ کرو۔ کہ اپنی جانوں کو قتل کرو۔ یہی (طریقہ کار) تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس صورت میں اس نے تمہاری توبہ قبول کی۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا اے موسیٰ! اس وقت تک ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک ظاہر بظاہر (اعلانیہ) خدا کو دیکھ نہ لیں۔ سو (اس پر) تمہارے دیکھتے بجلی نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔
پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں زندہ کیا تاکہ (اس احسان کے بعد) تم شکرگزار بن جاؤ۔
اور ہم نے (صحراء میں) تمہارے اوپر ابر کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا (اور کہا) کہ ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔ اور ان لوگوں نے (ناشکری کرکے) ہم پر کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
اور (یاد کرو وہ وقت) جب ہم نے کہا کہ اس بستی (بیت المقدس یا اریحا) میں داخل ہو جاؤ اور اس میں سے جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) مزے سے بافراغت کھاؤ۔ (پیو) اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوے حطہ (بخشش) کہتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کو کچھ زیادہ ہی (ثواب) عطا کریں گے۔
مگر ان ظالموں نے وہ بات (حطہ) جو ان سے کہی گئی تھی اسے ایک اور بات سے بدل دیا (اور حطۃ کی بجائے حنطۃ کہا) لہٰذا ہم نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر آسمان سے بڑا عذاب نازل کیا
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا۔ تو ہم نے کہا اپنا عصا چٹان پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اس طرح ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ (ہم نے کہا) خدا کے دیئے ہوئے رزق سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم ایک ہی (قسم کے) کھانے پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔ اس لئے آپ اپنے پروردگار سے ہمارے لئے دعا کیجئے کہ وہ (من و سلویٰ کی بجائے) ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے (پیدا کرے) جو زمین اگاتی ہے جیسے ساگ پات، ترکاری، کھیرا، ککڑی، مسور اور لہسن پیاز۔ موسیٰ نے کہا کیا تم کمتر و کہتر چیز لینا چاہتے ہو اس کے بدلہ میں جو برتر و بہتر ہے۔ اچھا شہر میں اتر پڑو۔ بے شک (وہاں) تمہیں وہ کچھ مل جائے گا جو تم مانگتے ہو۔ اور (انجام کار) ان پر ذلت و خواری اور افلاس و ناداری مسلط ہوگئی۔ اور وہ (اللہ کی نشانیوں کا ) انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے (اور یہ اس لئے بھی ہوا) کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے بڑھ بڑھ جاتے تھے (سرکشی کرتے تھے)۔
بے شک جو لوگ مؤمن یہودی نصرانی اور صابی (ستارہ پرست) کہلاتے ہیں (غرض) جو کوئی بھی (واقعی) اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ تو ان (سب) کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر و ثواب (محفوظ) ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے (کوہ) طور کو تم پر اٹھا کر (اور لٹکا کر) یہ عہد و پیمان لیا تھا کہ ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے (توراۃ) اسے مضبوطی سے پکڑو۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو (اس پر عمل کرو) تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
پھر تم اس (پختہ عہد) کے بعد پھر گئے۔ سو اگر تم پر اللہ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خاص رحمت نہ ہوتی تو تم سخت خسارہ (گھاٹا) اٹھانے والوں میں ہو جاتے۔
اور یقینا تمہیں ان لوگوں کا تو علم ہے جنہوں نے تم میں سے یوم السبت (ہفتہ کے دن) کے بارے میں زیادتی کی۔ (اور اس دن شکار کرکے قانون شکنی کی) تو ہم نے ان سے کہا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
پس ہم نے اس واقعہ کو اس زمانہ کے لوگوں اور بعد میں آنے والوں کے لئے (سامان) عبرت اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت بنا دیا۔
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں فرمایا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔
انہوں نے کہا ہماری خاطر اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں کھول کر بتائے کہ گائے کیسی ہو؟ (موسیٰ نے) کہا وہ (اللہ) فرماتا ہے کہ وہ نہ بالکل بوڑھی ہو اور نہ بالکل بن بیاہی بچھڑی۔ بلکہ ان دونوں کے بین (اوسط عمر کی ہو) جو حکم تمہیں دیا جا رہا ہے اس کی تعمیل کرو۔
کہنے لگے کہ ہماری طرف سے اپنے پروردگار سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں کھول کر بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ کہا وہ (اللہ) فرماتا ہے کہ وہ ایسے شوخ گہرے زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والے کا جی خوش کر دے۔
وہ بولے ہماری طرف سے اپنے پروردگار سے عرض کیجئے کہ وہ ہمیں کھول کر بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو چونکہ یہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے؟ اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم (اس گائے تک) صحیح راستہ پا جائیں گے۔
(موسیٰ نے) کہا وہ (پروردگار) فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جو سدھائی ہوئی نہیں ہے۔ نہ زمین کو جوتتی ہے اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہے۔ وہ صحیح سالم اور بے عیب ہے (اور ایسی یک رنگی ہے کہ) اس میں کوئی داغ دھبہ نہیں ہے اس پر پکار اٹھے اب آپ ٹھیک بات لائے غرض اب انہوں نے اسے ذبح کیا جبکہ وہ ایسا کرتے معلوم نہیں ہوتے تھے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ اور پھر اس کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے (ایک دوسرے پر قتل کا الزام لگانے لگے) اور اللہ اس چیز کو ظاہر کرنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے
(اس لئے) ہم نے کہا کہ اس گائے کا کوئی ٹکڑا اس (مقتول کی لاش) پر مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
(اے بنی اسرائیل) پھر اس کے بعد تمہارے دل ایسے سخت ہوگئے کہ گویا وہ پتھر ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو خدا کے خوف و خشیہ سے گر پڑتے ہیں۔ اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے غافل (بے خبر) نہیں ہے۔
(اے مسلمانو) کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ (یہودی) تمہارے کہنے سے ایمان لائیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی گزرا ہے جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور پھر اسے سمجھنے کے بعد دیدہ و دانستہ اس میں تحریف (رد و بدل) کر دیتا تھا۔
اور (یہ منافق لوگ) جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جب آپس میں تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے (توراۃ میں) تم پر ظاہر کی ہیں۔ تاکہ وہ انہیں تمہارے پروردگار کے حضور تمہارے خلاف بطور حجت پیش کریں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
کہا یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔
اور ان (یہود) میں کچھ ایسے ان پڑھ بھی ہیں جو بے بنیاد امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں کے سوا کتاب (توراۃ) کا کچھ بھی علم نہیں رکھتے۔ اور وہ صرف خام خیالیوں میں پڑے رہتے ہیں۔
سو خرابی و بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے (جعلی) کتاب (تحریر) لکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے (آئی) ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت (دنیوی فائدہ) حاصل کریں پس خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کی لکھائی پر اور بربادی ہے۔ ان کے لئے ان کی اس کمائی پر ۔
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا دوزخ کی آگ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی (اے رسول) آپ ان سے کہیے! کیا تم نے خدا سے کوئی عہد و پیمان لے لیا ہے کہ خدا کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا؟ یا اللہ کے ذمہ وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
کیوں نہیں (چھوئے گی) جو بھی برا کام کرے گا اور اس کا گناہ (چاروں طرف سے) اسے گھیر لے گا یہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور (اس کے ساتھ ساتھ) نیک عمل بھی کئے یہی لوگ بہشتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ ماں باپ سے (خصوصاً) رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے (عموماً) نیک سلوک کرنا اور سب سے اچھی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ مگر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب اس (عہد) سے پھر گئے۔ اور تم ہو ہی روگردانی کرنے والے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا، ایک دوسرے کو اپنے وطن سے (نکال کر) بے وطن نہ کرنا۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔
پھر تم ہی وہ ہو۔ جو اپنوں کو قتل کرتے ہو۔ اور اپنے بھائی بندوں کے کچھ لوگوں کو ان کے وطن سے نکال بھی دیتے ہو اور ان کے خلاف گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ سازش کرتے ہو اور جتھے بندی کرتے ہو (ان کے مخالفین کی مدد کرتے ہو) اور (پھر لطف یہ ہے کہ) اگر وہی لوگ دشمنوں کے ہاتھوں قید ہو کر تمہارے پاس آجائیں۔ تو تم ہی فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا وطن سے نکالنا تم پر حرام تھا۔ کیا تم کتاب (توراۃ) کے ایک حصہ (فدیہ دینے) پر ایمان لاتے ہو۔ اور دوسرے حصہ (جلا وطن کرنے کی حرمت) کا انکار کرتے ہو؟ تم میں سے جو ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف لوٹا دیئے جائیں اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے غافل (بے خبر) نہیں ہے۔
یہ وہ (بدقسمت) لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کی (ابدی زندگی) کے عوض دنیوی (فانی) زندگی خرید لی ہے پس نہ ہی ان کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔
البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی۔ اور ان کے بعد ہم نے پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعہ سے ان کی تائید کی۔ (اس کے باوجود جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفسی کے خلاف کوئی حکم لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے تکبر کیا سو بعض کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر (قدرتی) غلاف چڑھے ہوئے ہیں (ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا)۔ نہیں۔ بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے (اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے) اس لئے وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس والی کتاب (توراۃ) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعہ سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (کتاب) ان کے پاس آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو اس کا انکار کر دیا۔ پس کافروں (منکروں) پر اللہ کی لعنت ہو۔
سو کس قدر بری ہے وہ چیز جس کے عوض ان لوگوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا ہے کہ محض اس ضد اور سرکشی کی بناء پر اللہ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کر دیا کہ اس نے اپنے بندوں میں سے ایک خاص بندہ (نبی خاتم (ع)) پر اپنے فضل و کرم سے کیوں (وحی نبوت و کتاب) نازل کر دی؟ پس وہ اس روش کے نتیجہ میں (خدا کے) غضب بالائے غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہے۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (قرآن) اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہم (بنی اسرائیل) پر نازل کیا گیا ہے مگر اس کے علاوہ جو کچھ (قرآن، انجیل وغیرہ) ہے اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور جو ان کے پاس موجود ہے (توراۃ) اس کی بھی تصدیق کرتا ہے (اے رسول) آپ ان سے کہیے کہ اگر تم (توراۃ پر) ایمان رکھتے تھے تو اس سے پہلے (اگلے زمانہ) میں اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو؟ ۔
اور یقینا موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزے لے کر آئے پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ ان کے (کوہ طور پر جانے کے) بعد گوسالہ کو (معبود) بنا لیا۔
اور (وہ وقت یاد کرو) کہ جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور تمہارے اوپر کوہِ طور کو بلند کیا (اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے غور سے) سنو تو (تمہارے اسلاف) نے زبان سے کہا کہ ہم نے سن تو لیا اور دل میں کہا ہم عمل نہیں کریں گے اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں گوسالہ کی محبت بیٹھ گئی تھی۔ (اے رسول) کہیے! اگر تم مؤمن ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بہت ہی برے کاموں کا حکم دیتا ہے (یہ عجیب ایمان ہے)۔
نیز ان سے کہیے کہ اگر خدا کے نزدیک آخرت کا گھر (جنت) دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر موت کی آرزو کرو۔ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو (تاکہ جلدی بہشت میں داخل ہو جاؤ)۔
اور (سن لو) کہ یہ لوگ ان (اعمالِ بد) کی وجہ سے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں کبھی بھی موت کی آرزو نہیں کریں گے اور خدائے تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
اور (اے نبی!) تم ان کو سب لوگوں سے حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی بڑھ کر زندگی کا حریص پاؤ گے ان میں ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ایک ہزار سال کی عمر ملے حالانکہ اس قدر عمر کا مل جانا بھی اسے خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتا اور یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔
(اے رسول(ص)) کہہ دیجیئے! کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہے (ہوا کرے) اس نے تو وہ (قرآن) خدا کے حکم سے آپ کے دل میں اتارا ہے، جو اپنے سے پہلے (نازل شدہ) کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اہل ایمان کے لئے ہدایت اور کامیابی کی بشارت ہے۔
جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور (خاص کر) جبرئیل و میکائیل کا دشمن ہو تو بے شک اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے۔
(اے رسول(ص)) بالیقین ہم نے تمہاری طرف واضح آیتیں نازل کی ہیں اور ان کا انکار نہیں کرتے مگر وہی جو فاسق (نافرمان) ہیں۔
اور کیا (ہمیشہ ایسا نہیں ہوا کہ) جب بھی انہوں (یہود) نے کوئی عہد کیا۔ تو انہی کے ایک گروہ نے اسے پس پشت ڈال دیا (توڑ دیا) بلکہ ان میں سے اکثر بے ایمان ہیں۔
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ رسول (حضرت محمد(ص)) آیا جو ان کے پاس والی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہے تو انہی اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتابِ خدا (توراۃ) کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ جیسے کہ وہ اسے جانتے ہی نہیں۔
اور (یہ لوگ) ان (بے بنیاد) چیزوں کی پیروی کرنے لگے جو شیاطین سلیمان کے عہد سلطنت میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا۔ بلکہ ان شیطانوں نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے (نیز) وہ اس چیز (جادو) کی پیروی کرنے لگے جو بابل کے مقام پر ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر اتاری گئی۔ حالانکہ یہ دونوں فرشتے اس وقت تک کسی کو کچھ تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک پہلے یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم محض آزمائش ہیں۔ لہٰذا (اس علم کو غلط استعمال کرکے) کافر نہ ہو جانا (بایں ہمہ) لوگ ان سے وہ کچھ سیکھتے تھے جس سے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ حالانکہ وہ اذنِ خدا کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ الغرض وہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جو ان کو ضرر پہنچاتی تھی اور کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی تھی۔ اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جو شخص (دین کے بدلے) ان چیزوں کو خریدے گا۔ اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور کس قدر برا (معاوضہ) ہے جس پر انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا۔ کاش انہیں اس کا علم ہوتا۔
اور اگر یہ لوگ ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو خدا کی بارگاہ سے انہیں جو ثواب ملتا وہ (اس سے) بہتر ہوتا کاش انہیں اس کا علم ہوتا۔
اے ایمان والو (پیغمبر (ع) سے) راعنا نہ کہا کرو (بلکہ) انظرنا کہا کرو اور (توجہ سے ان کی بات) سنا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
جو لوگ کافر ہیں (خواہ) اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے وہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے کوئی بھلائی نازل ہو۔ حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لاتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے۔
کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست اور مددگار نہیں ہے۔
(اے مسلمانو) کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے ویسے ہی (احمقانہ) سوال کرو۔ جیسے اس سے پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے؟ اور جس شخص نے ایمان کے عوض کفر اختیار کیا وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔
(اے مسلمانو!) بہت سے اہل کتاب اپنے ذاتی حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد تمہیں پھر کافر بنا دیں باوجودیکہ ان پر حق واضح ہو چکا ہے سو تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ ان کے بارے میں اپنا حکم بھیجے یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور جو کچھ نیکی اور بھلائی اپنے لئے (زادِ راہ کے طور پر) آگے بھیج دوگے اسے اللہ کے یہاں موجود پاؤگے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ کوئی ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہی جو یہودی و نصرانی ہوگا۔ یہ ان کی خیال بندیاں اور خالی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔
ہاں۔ (کسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے) جو شخص (حق سن کر) اپنا سر تسلیم خدا کے سامنے خم کر دے اور (مقام عمل میں) نیکوکار بھی ہو تو اس کے پروردگار کے پاس اس کا اجر و ثواب ہے اور (قیامت کے دن) ایسے لوگوں کو کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
یہودی کہتے ہیں کہ نصرانی کسی چیز (راہ راست) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی کسی چیز (راہ راست) پر نہیں حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب کے پڑھنے والے ہیں اسی طرح (بے بنیاد) باتیں ان لوگوں (کفار و مشرکین) نے بھی کی ہیں جو کچھ بھی علم نہیں رکھتے۔ پس جن باتوں میں یہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہیں قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر سے (اللہ کے بندوں کو) روکے اور ان کی ویرانی و بربادی کی کوشش کرے حالانکہ (روکنے والوں) کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجدوں میں داخل ہوں مگر ڈرتے ڈرتے۔ ان لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
اور مشرق و مغرب (پورب و پچھم) سب اللہ کے ہی ہیں سو تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی ذات موجود ہے یقینا اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔
اور وہ (اہل کتاب) کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے۔ بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ اسی کا ہے سب اسی کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔
(وہی) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔
جاہل و ناداں کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے (براہ راست) کلام کیوں نہیں کرتا۔ یا ہمارے پاس (اس کی) کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی طرح کی (بے پرکی) باتیں کیا کرتے تھے ان سب کے دل (اور ذہن) ملتے جلتے ہیں۔ بے شک ہم نے یقین کرنے والے لوگوں کے لئے (اپنی نشانیاں) کھول کر بیان کر دی ہیں۔
(اے رسول) بے شک ہم نے آپ کو برحق بشیر و نذیر (خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس اتمام حجت کے بعد) دوزخ میں جانے والوں کے بارے میں آپ سے بازپرس نہیں کی جائے گی۔
اے رسول یہود و نصاریٰ اس وقت تک آپ سے راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے دین و مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں۔ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے (جو اس نے بتائی ہے) اور اگر آپ نے (اللہ کی طرف سے) علم آجانے کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات و خیالات کی پیروی کی۔ تو پھر اللہ (کی گرفت) سے آپ کو بچانے والا نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ کوئی یار و مددگار
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے وہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کا انکار کرتے ہیں تو یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا۔ اور یہ بھی کہ تمہیں دنیا و جہان والوں پر فضیلت دی۔
اور (قیامت کے) اس دن سے ڈرو۔ جب کوئی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا۔ اور نہ ہی سفارش کسی کو کچھ فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ ہی (کسی اور طریقہ سے) ان کی امداد کی جائے گی۔
(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو تمام لوگوں کے لئے مرکز اور مقام امن قرار دیا۔ اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم (جہاں عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تھے) کو (اپنی) نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو وصیت کی (حکم دیا) کہ تم دونوں میرے (اس) گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (ع) نے کہا (دعا کی) اے میرے پروردگار اس شہر (مکہ) کو امن والا شہر بنا۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں انہیں ہر قسم کے پھلوں سے روزی عطا فرما۔ ارشاد ہوا: اور جو کفر اختیار کرے گا اس کو بھی چند روزہ (زندگی میں) فائدہ اٹھانے دوں گا۔ اور پھر اسے کشاں کشاں دوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا۔ اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (خانہ کعبہ) کی بنیادیں بلند کر رہے تھے۔ (اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا کرتے جاتے تھے) اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ عمل) قبول فرما۔ بے شک تو بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنا (حقیقی) مسلمان (فرمانبردار بندہ) بنائے رکھ۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت مسلمہ (فرمانبردار امت) قرار دے۔ اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے بتا۔ اور ہماری توبہ قبول فرما بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
اے ہمارے پروردگار ان (امت مسلمہ) میں انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھیج جو انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے یقینا تو بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔
اور کون ہے جو ابراہیم (ع) کی ملت (و مذہب) سے روگردانی کرے سوا اس کے جو اپنے کو احمق بنائے اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب کیا اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیکوکاروں میں ہوگا۔
(یہ انتخاب اس وقت ہوا) جب ان کے پروردگار نے ان سے فرمایا: ’’مسلم‘‘ ہو جا (سر تسلیم جھکا کر فرمانبردار ہو جا)۔ تو انہوں نے کہا میں نے تمام جہانوں کے رب کے سامنے سر جھکا دیا۔
اور ابراہیم (ع) نے اپنے بیٹوں کو اسی (ملت پر قائم رہنے) کی وصیت کی اور یعقوب (ع) نے بھی۔ اے میرے فرزند! بے شک اللہ نے تمہارے لئے ایک خاص دین (اسلام) منتخب کیا ہے سو تم ہرگز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (حقیقی) مسلمان ہو۔
(اے یہود) کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب (ع) کی موت کا وقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا (پوچھا) کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے اور آپ کے آباء (و اجداد) ابراہیم (ع)، اسماعیل (ع) اور اسحاق (ع)کے واحد و یکتا معبود کی عبادت کریں گے۔ اور ہم اسی کے مسلمان (فرمانبردار) ہیں۔
یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی اس کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہے جو تم کماؤگے اور وہ جو کچھ کرتے تھے اس کے بارے میں تم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ یہودی ہو جاؤ یا نصرانی تاکہ ہدایت پا جاؤ۔ (اے رسول(ص)) کہہ دیجئے کہ (نہیں) بلکہ ہم ابراہیم (ع) کی ملت پر ہیں جو نرے کھرے موحد تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے۔