Quran Text Translations Spread Documents

Tahir ul Qadri


Change Log

Several fixes
Tue, 14 Sep 2010 00:38:47 -0400
-1 +1
اللہ اللہ کے نام سےشروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانےوالا ہے ‎
Major spacing and punctuation fixes
Fri, 4 Jun 2010 19:56:23 -0400
-16 +16
وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)٭ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے،٭ ہے، ٭ اس مقام پر مضاف محذوف ہے جو کہ رسول ہے یعنی یُخٰدِعُونَ اﷲَ کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ لیا گیا ہے۔ اکثر ائمہ مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے۔ بطور حوالہ ملاحظہ فرمائیں (تفسیر القرطبی، البیضاوی، البغوی، النسفی، الکشاف، المظھری، زاد المسیر، الخازن وغیرھم)۔
-143 +143
(اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں ، ہیں،
-411 +411
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو ، ہو،
-496,2 +496,2
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو ، ہو،
اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ ، کھاؤ،
-520 +520
اور اللہ تم پر مہربانی فرمانا چاہتا ہے، اور جو لوگ خواہشاتِ (نفسانی) کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑو ، پڑو،
-529 +529
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو ، ہو،
-556 +556
یہ وہ (منافق اور مُفسِد) لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ہر بات کو خوب جانتا ہے، پس آپ ان سے اِعراض برتیں اور انہیں نصیحت کرتے رہیں اور ان سے ان کے بارے میں مؤثر گفتگو فرماتے رہیں ، رہیں،
-594 +594
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ، ہیں،
-598 +598
(اے رسولِ گرامی!) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں ، بنیں،
-616 +616
(اللہ کا وعدۂ مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار ، مددگار،
-618 +618
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لئے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہو گیا) ، گیا)،
-637 +637
اے ایمان والو! مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ (نافرمانوں کی دوستی کے ذریعے) اپنے خلاف اللہ کی صریح حجت قائم کر لو ، لو،
-692,2 +692,2
ان (چند) لوگوں میں سے جو (اﷲ سے) ڈرتے تھے دو (ایسے) شخص بول اٹھے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا تھا (اپنی قوم سے کہنے لگے:) تم ان لوگوں پر (بلا خوف حملہ کرتے ہوئے شہر کے) دروازے سے داخل ہو جاؤ، سو جب تم اس (دروازے) میں داخل ہو جاؤ گے تو یقیناً تم غالب ہو جاؤ گے، اور اﷲ ہی پر توکل کرو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ، ہو،
انہوں نے کہا: اے موسٰی! جب تک وہ لوگ اس (سرزمین) میں ہیں ہم ہرگز کبھی بھی وہاں داخل نہیں ہوں گے، پس تم جاؤ اور تمہارا رب (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ، ہیں،
-827 +827
اور (اے انسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں،٭ ہیں، ٭ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اشارۃً بیان نہ کردیا ہو) پھر سب (لوگ) اپنے رب کے پاس جمع کئے جائیں گے،٭ گے، ٭ انہی مماثلتوں کے باعث انسانی ارتقاء کے باب میں ڈاروِن اور اس کے ہم نوا سائنس دانوں کو یہ مغالطہ لاحق ہوا ہے کہ شاید انسان انہی جانوروں کی ایک ارتقائی شکل ہے۔ ”أُمَمٌ أَمثَالُکُمۡ“ کے الفاط نے واضح کر دیا ہے کہ جانوروں، پرندوں اور انسانوں میں جسمانی، حیاتیاتی اور خصلتی مماثلتیں ضرور موجود ہیں اور یہ نظامِ تخلیق کی وحدت کی دلیل ہے مگر یہ سب الگ الگ طبقاتِ خلق ہیں۔ یہ درست ہے کہ انسانی حیات کا ظہور ارضی زندگی کے مختلف مراحل و ادوار کی تاریخ میں سب سے آخری دور میں ہوا ہے۔ یہ اس کے اکمل الخلق اور اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔
-938 +938
فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اﷲ ہی کی ہے، پس اگر وہ (تمہیں مجبور کرنا) چاہتا تو یقیناً تم سب کو (پابندِ) ہدایت فرما دیتا٭،٭ دیتا٭، ٭ وہ حق و باطل کا فرق اور دونوں کا انجام سمجھانے کے بعد ہر ایک کو آزادی سے اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع دیتا ہے، تاکہ ہر شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ٹھہرے اور اس پر جزا و سزا کا حق دار قرار پائے۔
-970 +970
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں) ، دوں)،
-1087 +1087
پھر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں،گھن، ٹڈیاں، گھن، مینڈک اور خون (کتنی ہی) جداگانہ نشانیاں (بطورِ عذاب) بھیجیں، پھر (بھی) انہوں نے تکبر و سرکشی اختیار کئے رکھی اور وہ (نہایت) مجرم قوم تھے،
-1142 +1142
آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصبِ رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭،٭ڈر ہیں٭، ٭ڈر اور خوشی کی خبریں بھی اُمورِ غیب میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرماتا ہے کیونکہ مِن جانبِ اللہ ایسی اِطلاع علی الغیب کے بغیر نہ تو نبوت و رسالت متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں فرمایا گیا ہے: وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِین ٍ(التکویر، ٨١: ٢٤) (اور یہ نیی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب بتانے میں ہر گز بخیل نہیں)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق غیب بتانے میں بخیل نہ ہونا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر باری تعالیٰ نے کمال فراوانی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علوم و اَخبارِ غیب پر مطلع فرمایا ہو، اگر سرے سے علمِ غیب عطا ہی نہ کیا گیا ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیب بتانا کیسا اور پھر اس پر بخیل نہ ہونے کا کیا مطلب؟ سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطلع علی الغیب ہونے کی قطعاً نفی نہیں بلکہ نفع و نقصان پر خود قادر و مالک اور بالذات عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
-1157 +1157
اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے (تو) وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے اپنی طرف سے وضع کر کے کیوں نہیں لائے؟ فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ، ہیں،
-1165 +1165
(اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لئے) باہر نکال لایا حالانکہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا ، تھا،
-1336 +1336
اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں (بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی)۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے٭ پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے،٭ گے، ٭ ایک بار جب ان کی پہچان کرا دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ کے دوران ان منافقین کو نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا، یہ پہلا عذاب بصورتِ ذلت و رسوائی تھا؛ اور دوسرا عذاب بصورتِ ہلاکت و مُقاتلہ ہوا جس کا حکم بعد میں آیا۔
-1454 +1454
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے (یعنی فرعون کو) ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا: میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں ، ہوں،
-1620 +1620
(یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بیشک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔٭ اس طرح (اس لئے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھے،٭ تھے، ٭ (یا انہوں نے بھی اس کو طاقت سے دور کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ اگر وہ اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیتے تو اپنے دفاع میں سختی کر گزرتے اور ممکن ہے اس دوران ان کا قمیض آگے سے پھٹ جاتا جو بعد ازاں ان کے خلاف شہادت اور وجہ تکلیف بنتا، سو اﷲ کی نشانی نے انہیں سختی کرنے سے روک دیا۔)
-1791 +1791
اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)٭اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا،٭ ہوگا، ٭ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد تارخ کی طرف اشارہ ہے، یہ کافر و مشرک نہ تھے بلکہ دینِ حق پر تھے۔ آزر دراصل آپ کا چچا تھا، اس نے آپ علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کے والد کی وفات کے بعد پالا تھا، اس لئے اسے عرفاً باپ کہا گیا ہے، وہ مشرک تھا اور آپ کو اس کے لئے دعائے مغفرت سے روک دیا گیا تھا جبکہ یہاں حقیقی والدین کے لئے دعائے مغفرت کی جا رہی ہے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اسے امتِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نمازوں میں بھی برقرار رکھ دیا گیا۔)
-2469 +2469
سو دونوں نے (اس مقامِ قربِ الٰہی کی لازوال زندگی کے شوق میں) اس درخت سے پھل کھا لیا پس ان پر ان کے مقام ہائے سَتَر ظاہر ہو گئے اور دونوں اپنے (بدن) پر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگذاشت ہوئی٭ سو وہ (جنت میں دائمی زندگی کی) مراد نہ پا سکے،٭ سکے، ٭ (کہ ممانعت مخصوص ایک درخت کی تھی یا اس کی پوری نوع کی تھی، کیونکہ آپ علیہ السلام نے پھل اس مخصوص درخت کا نہیں کھایا تھا بلکہ اسی نوع کے دوسرے درخت سے کھایا تھا، یہ سمجھ کر کہ شاید ممانعت اسی ایک درخت کی تھی۔)
-2802 +2802
بیشک جن لوگوں نے (عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا پر) بہتان لگایا تھا (وہ بھی) تم ہی میں سے ایک جماعت تھی، تم اس (بہتان کے واقعہ) کو اپنے حق میں برا مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر (ہوگیا) ہے٭ ان میں سے ہر ایک کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس نے کمایا، اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے،٭ ہے، ٭ (کیونکہ تمہیں اسی حوالے سے احکامِ شریعت مل گئے اور عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کی پاک دامنی کا گواہ خود اللہ بن گیا جس سے تمہیں ان کی شان کا پتہ چل گیا۔)
-2914 +2914
جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار میں پیدا فرمایا٭ پھر وہ (حسبِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا (وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)،٭ جانتے)، ٭ (ستۃ اَیّام سے مراد چھ اَدوارِ تخلیق ہیں، معروف معنٰی میں چھ دن نہیں کیونکہ یہاں تو خود زمین اور جملہ آسمانی کرّوں، کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور خلاؤں کی پیدائش کا زمانہ بیان ہو رہا ہے، اس وقت رات اور دن کا وجود کہاں تھا؟)
-3002 +3002
جب انہوں نے اپنے باپ ٭ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس چیز کو پوجتے ہو،٭ ہو، ٭ (یہ حقیقی باپ نہ تھا، چچا تھا۔ اسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش کی تھی جس کی وجہ سے اسے باپ کہا کرتے تھے۔ اس کا نام آزر ہے جبکہ آپ کے حقیقی والد کا نام تارخ ہے۔)
-3059 +3059
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ، مانگتا، میرا اجر تو فقط تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
-3228 +3228
فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا ، ہوا،
-3337 +3337
بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭،٭ ہے۔٭، ٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)
-3570 +3570
اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں وہ بات٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ (دل میں حیاءً) لوگوں (کی طعنہ زنی) کا خوف رکھتے تھے۔ (اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں (اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟)، پھر جب (آپ کے متبنٰی) زید نے اسے طلاق دینے کی غرض پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح) کے بارے میں کوئی حَرج نہ رہے جبکہ (طلاق دے کر) وہ ان سے بے غَرض ہو گئے ہوں، اور اللہ کا حکم تو پورا کیا جانے والا ہی تھا،٭: تھا، ٭: (کہ زینب کی تمہارے ساتھ مصالحت نہ ہو سکے گی اور منشاء ایزدی کے تحت وہ طلاق کے بعد اَزواجِ مطہرات میں داخل ہوں گی۔)
-4088 +4088
(اے حبیبِ مکرّم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقیناً (دائمی ہلاکت کے لئے) مردہ ہو جائیں گے (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)۔٭،٭جس ہوگا)۔٭، ٭جس طرح آیت : آیت: ٢۹ میں دی گئی مثال کے مطابق دو افراد کے اَحوال قطعاً برابر نہیں ہوں گے اسی طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اور دوسروں کی موت بھی ہرگز برابر یا مماثل نہیں ہوں گی۔ دونوں کی ماہیت اور حالت میں عظیم فرق ہوگا۔ یہ مثال اسی مقصد کے لئے بیان کی گئی تھی کہ شانِ نبوّت کے باب میں ہمسری اور برابری کا گمان کلیتہً ردّ ہو جائے۔ جیسے ایک مالک کا غلام صحیح اور سالم رہا اور بہت سے بدخو مالکوں کا غلام تباہ حال ہوا اسی طرح اے حبیبِ مکرّم! آپ تو ایک ہی مالک کے برگزیدہ بندے اور محبوب و مقرب رسول ہیں سو وہ آپ کو ہر حال میں سلامت رکھے گا اور یہ کفار بہت سے بتوں اور شریکوں کی غلامی میں ہیں سو وہ انہیں بھی اپنی طرح دائمی ہلاکت کا شکار کر دیں گے۔
-4188 +4188
پس آپ صبر کیجئے، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور اپنی اُمت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے٭ اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کیجئے،٭ کیجئے، ٭ لِذَنبِكَ میں ”امت“ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے، لہٰذا اس بناء پر یہاں وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں: ۱۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) أی لِذَنبِ أُمتِکَ یعنی اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، ۴: ۳۵۹)۔ ۲۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) قیل: لِذَنبِ أُمتِکَ حذف المضاف و أقیم المضاف الیہ مقامہ۔ ”وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کر دیا گیا۔“ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۵: ۳۲۴)۔ ۳۔ وَ قیل: لِذَنبِکَ لِذَنبِ أُمتِکَ فِی حَقِّکَ ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ لِذَنبِکَ یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزَد ہونے والی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔“ (ابن حیان اندلسی، البحر المحیط، ۷:۴۷۱)۔ ۷: ۴۷۱)۔ ۴۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) قیل: المراد ذنب أمتک فھو علی حذف المضاف ” کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے۔“ ( علامہ شوکانی، فتح القدیر، ۴: ۴۹۷)
-4199 +4199
فرما دیجئے: مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اُن کی پرستش کروں جن بتوں کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی جانب سے واضح نشانیاں آچکی ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی فرمانبرداری کروں ، کروں،
-4324 +4324
سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)، اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں)(۱) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں(۲)، ۱:- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اُمّیت کی طرف اشارہ ہے تاکہ کفّار آپ کی زبان سے قرآن کی آیات اور ایمان کی تفصیلات سن کر یہ بدگمانی نہ پھیلائیں کہ یہ سب کچھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ذاتی علم اور تفکر سے گھڑ لیا ہے کچھ نازل نہیں ہوا، سو یہ اَز خود نہ جاننا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم معجزہ بنا دیا گیا۔ ۲ :- ۲:- اے حبیب! آپ کا ہدایت دینا اور ہمارا ہدایت دینا دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے اور صرف انہی کو ہدایت نصیب ہوتی ہے جو اس حقیقت کی معرفت اور اس سے وابستگی رکھتے ہیں۔
-4395 +4395
تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی،٭ گی، ٭ مفسرین کرام نے آیتِ کریمہ میں اَزوَاجُکُم کا معنی بیویوں کے علاوہ ”قریبی ساتھی“ بھی کیا ہے جیسے امام قرطبی نے تفسیر ”الجامع لاحکام القرآن (۱۶:۱۱۱ (۱۶: ۱۱۱ )“ میں، امام ابن کثیر نے ”تفسیر القرآن العظیم (۴: ۱۳۴)“ میں، اور امام شوکانی نے تفسیر ”فتح القدیر (۴ : (۴: ۵۶۳)“ میں یہ معنی بیان کیا ہے۔ اسی بناء پر یہاں اَزوَاج کا معنی بیویوں کی بجائے ”ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی“ کیا گیا ہے۔
-4564 +4564
پس جان لیجئے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ (اظہارِ عبودیت اور تعلیمِ امت کی خاطر اﷲ سے) معافی مانگتے رہا کریں کہ کہیں آپ سے خلافِ اولیٰ (یعنی آپ کے مرتبہ عالیہ سے کم درجہ کا) فعل صادر نہ ہو جائے٭ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی طلبِ مغفرت (یعنی ان کی شفاعت) فرماتے رہا کریں (یہی ان کا سامانِ بخشش ہے)، اور (اے لوگو!) اﷲ (دنیا میں) تمہارے چلنے پھرنے کے ٹھکانے اور (آخرت میں) تمہارے ٹھہرنے کی منزلیں (سب) جانتا ہے،٭ ہے، ٭ (خواہ وہ فعل اپنی جگہ شرعاً جائز اور مستحسن ہی کیوں نہ ہو مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اتنا بلند اور ارفع و اعلٰی ہے کہ کئی اعمال صالحہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لحاظ سے کمتر ہیں۔)
-4577 +4577
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت (اور ان سے جدائی کی راہ اختیار) کی اس کے بعد کہ ان پر ہدایت (یعنی عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت) واضح ہو چکی تھی وہ اللہ کا ہرگز کچھ نقصان نہیں کر سکیں گے (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت کو گھٹا نہیں سکیں گے)،٭ گے)، ٭ اور اﷲ ان کے (سارے) اعمال کو (مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باعث) نیست و نابود کر دے گا،٭ گا، ٭ تمام ائمہ تفسیر نے لکھا ہے: (لَن يَضُرُوا اللّہَ شَيْئًا) أی: لن یضرّوا رسولَ اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمشاقتہ و حذف المضاف لتعظیم شانہ۔ ملاحظہ فرمائیں: الطبری، البیضاوی، روح المعانی، روح البیان، الجمل، البحر المدید وغیرہ۔ اس اُسلوبِ کلام کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں جن میں سے ایک سورۃ البقرۃ کی آیت ۹: (یُخٰدِعُونَ اﷲَ وَالّذِینَ آمَنُوا) ہے۔ اس مقام پر یخٰدعون اﷲ (وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں) کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ (وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں) لیا گیا ہے۔
-4585 +4585
تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے اُن تمام اَفراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے٭ (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کیے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطے سے آپ کی امت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے،٭ رکھے، ٭ یہاں حذفِ مضاف واقع ہوا ہے۔ مراد ”ما تقدم من ذنب أمتک و ما تاخر“ ہے، کیونکہ آگے اُمت ہی کے لئے نزولِ سکینہ، دخولِ جنت اور بخششِ سیئات کی بشارت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون آیت نمبر ۱ سے ۵ تک ملا کر پڑھیں تو معنی خود بخود واضح ہو جائے گا؛ اور مزید تفصیل تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ جیسا کہ سورۃ المؤمن کی آیت نمبر ۵۵ کے تحت مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ ”لِذَنبِکَ“ میں ”امت“ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے۔ لہٰذا اس بناء پر یہاں وَاستَغفِر لِذَنبِکَ سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں:-۱ : کریں:-۱: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) أی لذنب أمتک یعنی اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، ۴: ۳۵۹)۔۲ : ۳۵۹)۔۲: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: لذنب أمتک حذف المضاف و أقیم المضاف الیہ مقامہ۔ ”واستغفر لذنبک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کر دیا گیا۔“ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۵: ۳۲۴)۔ ۳: وَ قیل لذنبک لذنب أمتک فی حقک ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ لذنبک یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزد ہونے والی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔“ (ابن حیان اندلسی، البحر المحیط، ۷: ۴۷۱)۔ ۴: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: المراد ذنب أمتک فھو علی حذف المضاف ”کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے۔“ (علامہ شوکانی، فتح القدیر، ۴: ۴۹۷)۔
-4783 +4783
اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں٭ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوں،٭ ہوں، ٭ اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔
-4792 +4792
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا٭،٭ ہوگیا٭، ٭ یہ معنی امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے، مزید حضرت عبد اﷲ بن عباس، امام حسن بصری، امام جعفر الصادق، محمد بن کعب القرظی التابعی، ضحّاک رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی ائمہِ تفسیر کا قول بھی یہی ہے۔
-4797 +4797
اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)٭،٭ ہو)٭، ٭ یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے۔
-4800 +4800
جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں٭،٭ تھیں٭، ٭ یہ معنی بھی امام حسن بصری رضی اللہ عنہ و دیگر ائمہ کے اقوال پر ہے۔
-4903 +4903
جس نے (خود رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھایا٭،٭ سکھایا٭، ٭ کفّار و مشرکینِ مکہ کے اِس الزام کے جواب میں یہ آیت اتری کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (معاذ اللہ) کوئی شخص خفیہ قرآن سکھاتا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، القشیری، البحر المحیط، الجمل، فتح القدیر، المظہری، اللباب، الصاوی، السراج المنیر، مراغی، اضواء البیان اور مجمع البیان وغیرھم۔
-4905 +4905
اسی نے اِسے (یعنی نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مَا کَانَ وَ مَا یَکُونُ کا) بیان سکھایا٭،٭ سکھایا٭، ٭ مفسرین کرام نے بیان کا معنی علمِ مَا کَانَ وَ مَا یَکُونُ بھی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاخطہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، جمل، المظہری، اللباب، زاد المسیر، صاوی، السراج المنیر اور مجمع البیان۔
-5027 +5027
اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (زندہ کئے جائیں گے) ، گے)،
-5054 +5054
پس میں اُن جگہوں کی قَسم کھاتا ہوں جہاں جہاں قرآن کے مختلف حصے (رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اترتے ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بیان کردہ معنی پر کیا گیا ہے، مزید حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبد اللہ بن جبیر، حضرت سدی، حضرت فراء اور حضرت زجاج رضی اللہ عنھم اور دیگر ائمہ تفسیر کا قول بھی یہی ہے؛ اور سیاقِ کلام بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ پیچھے سورۃ النجم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم کہا گیا ہے، یہاں قرآن کی سورتوں کو نجوم کہا گیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، طبری، الدر المنثور، الکشاف، تفسیر ابن ابی حاتم، روح المعانی، ابن کثیر، اللباب، البحر المحیط، جمل، زاد المسیر، فتح القدیر، المظہری، البیضاوی، تفسیر ابی سعود اور مجمع البیان۔
-5193 +5193
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ آیت عبد اللہ بن اُبیّ (رئیس المنافقین) کے بارے میں نازل ہوئی، جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بخشش طلبی کے لئے حاضر ہونے کا کہا گیا تو سر جھٹک کر کہنے لگا: میں نہیں جاتا، میں ایمان بھی لا چکا ہوں، ان کے کہنے پر زکوٰۃ بھی دے دی ہے۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ بھی کروں؟ (الطبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن)۔
-5205 +5205
یہ اس لئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول واضح نشانیاں لے کر آتے تھے تو وہ کہتے تھے: کیا (ہماری ہی مثل اور ہم جنس) بشر٭ ہمیں ہدایت کریں گے؟ سو وہ کافر ہوگئے اور انہوں نے (حق سے) رُوگردانی کی اور اللہ نے بھی (اُن کی) کچھ پرواہ نہ کی، اور اللہ بے نیاز ہے لائقِ حمد و ثنا ہے،٭ ہے، ٭ بشر کا یہ معنی ائمہ تفاسیر کے بیان کردہ معنی کے مطابق ہے۔ حوالہ جات کے لئے دیکھیں: تفسیر طبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن، جمل، مظہری اور فتح القدیر وغیرہ۔
-5284 +5284
(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے٭،٭ ہے٭، ٭ یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت کو دئیے آج تک کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)
-5339 +5339
اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی) قوت کے ذریعے (سیاہ) شگافوں٭ پر مشتمل ہو جائے گی،٭ واھیۃ .... گی، ٭ واھیۃ.... الوَھی: وَھِی، یَھِی، وَھیًا کا معنیٰ ہے: شق فی الادیم والثوب ونحوھما، یقال: وَھِیَ الثوب أی انشَقّ وَ تَخَرّقَ (چمڑے، کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں کا پھٹ جانا اور ان میں شگاف ہو جانا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے: کپڑا پھٹ گیا اور اس میں شگاف ہوگیا) .... ہوگیا).... (المفردات، لسان العرب، قاموس المحیط، المنجد وغیرہ)۔ اسے جدید سائنس نے بلیک ہولز سے تعبیر کیا ہے۔
-5379 +5379
اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ فِی یَومٍ اگر وَاقِعٍ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ جس دن (یومِ قیامت) کو عذاب واقع ہوگا اس کا دورانیہ ٥٠ ہزار برس کے قریب ہے۔ اور اگر یہ تَعرُجُ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ ملائکہ اور اَرواحِ مومنین جو عرشِ اِلٰہی کی طرف عروج کرتی ہیں ان کے عروج کی رفتار ٥٠ ہزار برس یومیہ ہے، وہ پھر بھی کتنی مدت میں منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔ واﷲ أعلم بالصواب۔ (یہاں سے نوری سال (لا‌ّّّ‎ئٹ ائیر) کے تصور کا اِستنباط ہوتا ہے۔)
-5436 +5436
اور اﷲ نے تمہیں زمین سے سبزے کی مانند اُگایا٭،٭ اُگایا٭، ٭ اَرضی زندگی میں پودوں کی طرح حیاتِ اِنسانی کی اِبتداء اور نشو و نما بھی کیمیائی اور حیاتیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے تدریجاً ہوئی، اِسی لئے اِسے اَنبَتَکُم مِّنَ الاَرضِ نَبَاتًا کے بلیغ اِستعارہ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
-5823 +5823
اور بیشک انہوں نے اس (مالکِ عرش کے حُسنِ مطلق) کو (لامکاں کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک، عکرمہ، ابو سلمہ، ضحّاک، ابو العالیہ، حسن، کعب الاحبار، شریک بن عبد اللہ اور شعبی و غیرھم رضی اللہ عنھم کے اَقوال پر کیا گیا ہے جنہیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، بغوی اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور کثیر ائمہ تفسیر نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔
-5934 +5934
(اس سے مراد) ہر وہ آسمانی کرّہ ہے (خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ یا اَجرامِ سماوی کا کوئی اور کرّہ) جو چمک کر (فضا کو) روشن کر دیتا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ النجم الثاقب سے مراد ذاتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے، جس نے سراجاً منیراً کی شان کے ساتھ آسمانِ رسالت پر چمک کر ظلمت بھری کائنات کو نورِ ایمان سے روشن کر دیا ہے۔ (الشفاء)
-5994,3 +5994,3
اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)٭،٭ گئی)٭، ٭ مراد ہر روز کی صبح یا نمازِ فجر ہے یا بطورِ خاص ماہ ذی الحجہ کی پہلی صبح یا یکم محرم کی صبح ہے یا عید الاضحٰی کی صبح۔ اس سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی ہے جن کی بعثت سے شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی۔
اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم٭،٭ قَسم٭، ٭ مراد ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں یا پہلے عشرۂ محرّم کی راتیں ہیں یا اوّل عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں جو برکات و درجات سے معمور ہیں۔
اور جفت کی قَسم اور طاق کی قَسم٭،٭ قَسم٭، ٭ جفت (جوڑا) سے مراد کل مخلوق ہے جو جوڑوں کی صورت میں پیدا کی گئی ہے، اور طاق (فرد و تنہا) سے مراد خالق ہے جو وحدہ لا شریک ہے۔ یا شَفع یومِ نحر (قربانی) اور وَتر یومِ عرفہ (حج) ہے، یا شَفع سے مراد دنیا کے شب و روز ہیں اور وَتر سے مراد یومِ قیامت ہے جس کی کوئی شب نہ ہوگی۔ یا شَفع سے مراد سال بھر کی عام جفت راتیں ہیں اور وَتر سے مراد سال بھر کی برکت والی طاق راتیں ہیں، مثلاً شبِ معراج، شبِ برات اور شبِ قدر وغیرہ جو پے در پے رجب، شعبان اور رمضان میں آتی ہیں۔ یا شَفع سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام کا پہلا جوڑا ہے اور وَتر سے مراد تنہا حضرت آدم علیہ السلام، جن سے تخلیقِ انسانیت کی ابتداء ہوئی۔
-6025,2 +6025,2
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ ”لا زائدہ“ کے اعتبار سے ہے۔ لا ”نفئ صحیح“ کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی٭،٭ ہوئی٭، ٭ یعنی آدم علیہ السلام کی ذریّتِ صالحہ یا آپ ہی کی ذات گرامی جن کے باعث یہ شہرِ مکہ بھی لائقِ قَسم ٹھہرا ہے۔
-6085,3 +6085,3
(اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا۔ یا- کیا اس نے آپ کو (مہربان) نہیں پایا پھر اس نے (آپ کے ذریعے) یتیموں کو ٹھکانا دیا)٭،٭ دیا)٭، ٭ اِس ترجہ میں یتیماً کو فاٰوٰی کا مفعولِ مقدّم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی۔٭،٭ دی۔٭، ٭ اِس ترجہ میں ضالاً کو فَھَدٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو (جوّاد و کریم) پایا تو اس نے (آپ کے ذریعے) محتاجوں کو غنی کر دیا۔٭،٭ دیا۔٭، ٭ ان تینوں تراجم میں یَتِیماً کو فَاٰوٰی کا، ضآلًّا کو فَھَدٰی کا اور عائِلًا کو فَاَغنٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
-6205 +6205
بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے٭،٭ ہے٭، ٭ کوثر سے مراد حوضِ کوثر یا نہرِ جنت بھی ہے اور قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل و معجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔ رفعتِ ذکر اور خلقِ عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرتِ الٰہیہ اور کثرتِ فتوحات بھی مراد ہیں اور روزِ قیامت مقامِ محمود اور شفاعتِ عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے۔
First version
Fri, 4 Jun 2010 19:54:20 -0400
-0,0 +1,6236
اللہ کے نام سےشروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانےوالا ہے ‎
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے
نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
روزِ جزا کا مالک ہے
(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا
الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے،
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں،
اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں،
وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں،
بیشک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لئے برابر ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے،
اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے،
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں،
وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)٭ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے،٭ اس مقام پر مضاف محذوف ہے جو کہ رسول ہے یعنی یُخٰدِعُونَ اﷲَ کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ لیا گیا ہے۔ اکثر ائمہ مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے۔ بطور حوالہ ملاحظہ فرمائیں (تفسیر القرطبی، البیضاوی، البغوی، النسفی، الکشاف، المظھری، زاد المسیر، الخازن وغیرھم)۔
ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے،
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں،
آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں،
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں: کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو! بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں،
اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں،
اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے،
ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتے،
یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے،
یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے،
یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے،
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے تمہارے کھانے کے لئے (انواع و اقسام کے) پھل پیدا کئے، پس تم اللہ کے لئے شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ تم (حقیقتِ حال) جانتے ہو،
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو،
پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے،
اور (اے حبیب!) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے (بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جب انہیں ان باغات میں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو (اس کی ظاہری صورت دیکھ کر) کہیں گے: یہ تو وہی پھل ہے جو ہمیں (دنیا میں) پہلے دیا گیا تھا، حالانکہ انہیں (صورت میں) ملتے جلتے پھل دیئے گئے ہوں گے، ان کے لئے جنت میں پاکیزہ بیویاں (بھی) ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اللہ کو کیا سروکار؟ (اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیں،
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں،
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا، پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے،
اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو،
فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے،
اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو،
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا،
اور ہم نے حکم دیا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گے،
پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لئے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہے،
پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے،
ہم نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،
اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے تو وہی دوزخی ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرا کرو،
اور اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو میں نے (اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اتاری (ہے، حالانکہ) یہ اس کی (اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کو (دنیا کی) تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہ کرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو،
اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ،
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو،
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟،
اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، اور بیشک یہ گراں ہے مگر (ان) عاجزوں پر (ہرگز) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں)،
(یہ وہ لوگ ہیں) جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں،
اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی،
اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (کسی ایسے شخص کی) کوئی سفارش قبول کی جائے گی (جسے اِذنِ اِلٰہی حاصل نہ ہوگا) اور نہ اس کی طرف سے (جان چھڑانے کے لئے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ (اَمرِ الٰہی کے خلاف) ان کی اِمداد کی جا سکے گی،
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے، اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (کڑی) آزمائش تھی،
اور جب ہم نے تمہیں (بچانے کے) لئے دریا کو پھاڑ دیا سو ہم نے تمہیں (اس طرح) نجات عطا کی اور (دوسری طرف) ہم نے تمہاری آنکھوں کے سامنے قومِ فرعون کو غرق کر دیا،
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا پھر تم نے موسیٰ (علیہ السلام کے چلّہءِ اعتکاف میں جانے) کے بعد بچھڑے کو (اپنا) معبود بنا لیا اور تم واقعی بڑے ظالم تھے،
پھر ہم نے اس کے بعد (بھی) تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکرگزار ہو جاؤ،
اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والا (معجزہ) عطا کیا تاکہ تم راہِ ہدایت پاؤ،
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! بیشک تم نے بچھڑے کو (اپنا معبود) بنا کر اپنی جانوں پر (بڑا) ظلم کیا ہے، تو اب اپنے پیدا فرمانے والے (حقیقی رب) کے حضور توبہ کرو، پس (آپس میں) ایک دوسرے کو قتل کر ڈالو (اس طرح کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی اور اپنے دین پر قائم رہے ہیں وہ بچھڑے کی پرستش کر کے دین سے پھر جانے والوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیں)، یہی (عمل) تمہارے لئے تمہارے خالق کے نزدیک بہترین (توبہ) ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرما لی، یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے،
اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو (آنکھوں کے سامنے) بالکل آشکارا دیکھ لیں پس (اس پر) تمہیں کڑک نے آلیا (جو تمہاری موت کا باعث بن گئی) اور تم (خود یہ منظر) دیکھتے رہے،
پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد تمہیں (دوبارہ) زندہ کیا تاکہ تم (ہمارا) شکر ادا کرو،
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم پر (وادئ تِیہ میں) بادل کا سایہ کئے رکھا اور ہم نے تم پر مَنّ و سلوٰی اتارا کہ تم ہماری عطا کی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، سو انہوں نے (نافرمانی اور ناشکری کر کے) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا مگر اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے،
اور (یاد کرو) جب ہم نے فرمایا: اس شہر میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب جی بھر کے کھاؤ اور (یہ کہ شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا: (اے ہمارے رب! ہم سب خطاؤں کی) بخشش چاہتے ہیں، (تو) ہم تمہاری (گزشتہ) خطائیں معاف فرما دیں گے، اور (علاوہ اس کے) نیکوکاروں کو مزید (لطف و کرم سے) نوازیں گے،
پھر (ان) ظالموں نے اس قول کو جو ان سے کہا گیا تھا ایک اور کلمہ سے بدل ڈالا سو ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے (بصورتِ طاعون) سخت آفت اتار دی اس وجہ سے کہ وہ (مسلسل) حکم عدولی کر رہے تھے،
اور (وہ وقت بھی یا دکرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، واقعۃً ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا، (ہم نے فرمایا:) اﷲ کے (عطا کردہ) رزق میں سے کھاؤ اور پیو لیکن زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو،
اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم فقط ایک کھانے (یعنی منّ و سلویٰ) پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے تو آپ اپنے رب سے (ہمارے حق میں) دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز پیدا کر دے، (موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے) فرمایا: کیا تم اس چیز کو جو ادنیٰ ہے بہتر چیز کے بدلے مانگتے ہو؟ (اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو) کسی بھی شہر میں جا اترو یقیناً (وہاں) تمہارے لئے وہ کچھ (میسر) ہو گا جو تم مانگتے ہو، اور ان پر ذلّت اور محتاجی مسلط کر دی گئی، اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹ گئے، یہ اس وجہ سے (ہوا) کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، اور یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ وہ نافرمانی کیا کرتے اور (ہمیشہ) حد سے بڑھ جاتے تھے،
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے،
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو اٹھا کھڑا کیا، کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو کچھ اس (کتاب تورات) میں (لکھا) ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
پھر اس (عہد اور تنبیہ) کے بعد بھی تم نے روگردانی کی، پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقینا تباہ ہو جاتے،
اور (اے یہود!) تم یقیناً ان لوگوں سے خوب واقف ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن (کے احکام کے بارے میں) سرکشی کی تھی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ،
پس ہم نے اس (واقعہ) کو اس زمانے اور اس کے بعد والے لوگوں کے لئے (باعثِ) عبرت اور پرہیزگاروں کے لئے (مُوجبِ) نصیحت بنا دیا،
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (اس سے) کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں،
(تب) انہوں نے کہا: آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے کہ (وہ) گائے کیسی ہو؟ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: بیشک وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو بوڑھی ہو اور نہ بالکل کم عمر (اَوسَر)، بلکہ درمیانی عمر کی (راس) ہو، پس اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے،
وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہو، اس کی رنگت خوب گہری ہو (ایسی جاذبِ نظر ہو کہ) دیکھنے والوں کو بہت بھلی لگے،
(اب) انہوں نے کہا: آپ ہمارے لئے اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ وہ ہم پر واضح فرما دے کہ وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے، اور یقیناً اگر اللہ نے چاہا تو ہم ضرور ہدایت یافتہ ہو جائیں گے،
(موسیٰ علیہ السلام نے کہا:) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وہ کوئی گھٹیا گائے نہیں بلکہ) یقینی طور پر ایسی (اعلیٰ) گائے ہو جس سے نہ زمین میں ہل چلانے کی محنت لی جاتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، بالکل تندرست ہو اس میں کوئی داغ دھبہ بھی نہ ہو، انہوں نے کہا: اب آپ ٹھیک بات لائے (ہیں)، پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے،
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا پھر تم آپس میں اس (کے الزام) میں جھگڑنے لگے، اور اللہ (وہ بات) ظاہر فرمانے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے،
پھر ہم نے حکم دیا کہ اس (مُردہ) پر اس (گائے) کا ایک ٹکڑا مارو، اسی طرح اللہ مُردوں کو زندہ فرماتا ہے (یا قیامت کے دن مُردوں کو زندہ کرے گا) اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لو،
پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہوگئے) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت (ہو چکے ہیں، اس لئے کہ) بیشک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقیناً ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بیشک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی،) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں،
(اے مسلمانو!) کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ (یہودی) تم پر یقین کر لیں گے جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے (بھی) تھے کہ اللہ کا کلام (تورات) سنتے پھر اسے سمجھنے کے بعد (خود) بدل دیتے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے (کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں)،
اور (ان کا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ) جب اہلِ ایمان سے ملتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم (بھی تمہاری طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) ایمان لے آئے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں (تو) کہتے ہیں: کیا تم ان (مسلمانوں) سے (نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور شان کے بارے میں) وہ باتیں بیان کر دیتے ہو جو اللہ نے تم پر (تورات کے ذریعے) ظاہر کی ہیں تاکہ اس سے وہ تمہارے رب کے حضور تمہیں پر حجت قائم کریں، کیا تم (اتنی) عقل (بھی) نہیں رکھتے؟،
کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کو وہ سب کچھ معلوم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں،
اور ان (یہود) میں سے (بعض) ان پڑھ (بھی) ہیں جنہیں (سوائے سنی سنائی جھوٹی امیدوں کے) کتاب (کے معنی و مفہوم) کا کوئی علم ہی نہیں وہ (کتاب کو) صرف زبانی پڑھنا جانتے ہیں یہ لوگ محض وہم و گمان میں پڑے رہتے ہیں،
پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے اس (کتاب کی وجہ) سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں،
اور وہ (یہود) یہ (بھی) کہتے ہیں کہ ہمیں (دوزخ کی) آگ ہرگز نہیں چھوئے گی سوائے گنتی کے چند دنوں کے، (ذرا) آپ (ان سے) پوچھیں: کیا تم اللہ سے کوئی (ایسا) وعدہ لے چکے ہو؟ پھر تو وہ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہ کرے گا یا تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے،
ہاں واقعی جس نے برائی اختیار کی اور اس کے گناہوں نے اس کو ہر طرف سے گھیر لیا تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
اور جو لوگ ایمان لائے اور (انہوں نے) نیک عمل کیے تو وہی لوگ جنّتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہو گئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو،
اور جب ہم نے تم سے (یہ) پختہ عہد (بھی) لیا کہ تم (آپس میں) ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے لوگوں کو (اپنے گھروں اور بستیوں سے نکال کر) جلاوطن کرو گے پھر تم نے (اس امر کا) اقرار کر لیا اور تم (اس کی) گواہی (بھی) دیتے ہو،
پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کر رہے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے باہر نکال رہے ہو اور (مستزاد یہ کہ) ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے ساتھ (ان کے دشمنوں کی) مدد بھی کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پا س آجائیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (تاکہ وہ تمہارے احسان مند رہیں) حالانکہ ان کا وطن سے نکالا جانا بھی تم پر حرام کر دیا گیا تھا، کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیا کی زندگی خرید لی ہے، پس نہ ان پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی ان کو مدد دی جائے گی،
اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا کی اور ان کے بعد ہم نے پے در پے (بہت سے) پیغمبر بھیجے، اور ہم نے مریم (علیھا السلام) کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید (اور مدد) کی، تو کیا (ہوا) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ (احکام) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم (وہیں) اکڑ گئے اور بعضوں کو تم نے جھٹلایا اور بعضوں کو تم قتل کرنے لگے،
اور یہودیوں نے کہا: ہمارے دلوں پر غلاف ہیں، (ایسا نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے سو وہ بہت ہی کم ایمان رکھتے ہیں،
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے،
انہوں نے اپنی جانوں کا کیا برا سودا کیا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کر رہے ہیں، محض اس حسد میں کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (وحی) نازل فرماتا ہے، پس وہ غضب در غضب کے سزاوار ہوئے، اور کافروں کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے،
اور جب ان سے کہا جاتا ہے: اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جسے اللہ نے (اب) نازل فرمایا ہے، (تو) کہتے ہیں: ہم صرف اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی، اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ (قرآن بھی) حق ہے (اور) اس (کتاب) کی (بھی) تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے، آپ (ان سے) دریافت فرمائیں کہ پھر تم اس سے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کرتے رہے ہو اگر تم (واقعی اپنی ہی کتاب پر) ایمان رکھتے ہو،
اور (صورت حال یہ ہے کہ) تمہارے پاس (خود) موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لائے پھر تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تم (حقیقت میں) ہو ہی جفاکار،
اور جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا اور ہم نے تمہارے اوپر طور کو اٹھا کھڑا کیا (یہ فرما کر کہ) اس (کتاب) کو مضبوطی سے تھامے رکھو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور (ہمارا حکم) سنو، تو (تمہارے بڑوں نے) کہا: ہم نے سن لیا مگر مانا نہیں، اور ان کے دلوں میں ان کے کفر کے باعث بچھڑے کی محبت رچا دی گئی تھی، (اے محبوب! انہیں) بتا دیں یہ باتیں بہت (ہی) بری ہیں جن کا حکم تمہیں تمہارا (نام نہاد) ایمان دے رہا ہے اگر (تم واقعۃً ان پر) ایمان رکھتے ہو،
آپ فرما دیں: اگر آخرت کا گھر اللہ کے نزدیک صرف تمہارے لئے ہی مخصوص ہے اور لوگوں کے لئے نہیں تو تم (بے دھڑک) موت کی آرزو کرو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو،
وہ ہرگز کبھی بھی اس کی آرزو نہیں کریں گے ان گناہوں (اور مَظالِم) کے باعث جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں (یا پہلے کر چکے ہیں) اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے،
آپ انہیں یقیناً سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس میں مبتلا پائیں گے اور (یہاں تک کہ) مشرکوں سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل جائے، اگر اسے اتنی عمر مل بھی جائے، تو بھی یہ اسے عذاب سے بچانے والی نہیں ہو سکتی، اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے،
آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے،
جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہوا تو یقیناً اللہ (بھی ان) کافروں کا دشمن ہے،
اور بیشک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (نشانیوں) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا،
اور کیا (ایسا نہیں کہ) جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ کر پھینک دیا، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے،
اور (اسی طرح) جب ان کے پاس اللہ کی جانب سے رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے جو اس کتاب کی (اصلاً) تصدیق کرنے والے ہیں جو ان کے پاس (پہلے سے) موجود تھی تو (انہی) اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی (اسی) کتاب (تورات) کو پسِ پشت پھینک دیا، گویا وہ (اس کو) جانتے ہی نہیں (حالانکہ اسی تورات نے انہیں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دی تھی)،
اور وہ (یہود تو) اس چیز (یعنی جادو) کے پیچھے (بھی) لگ گئے تھے جو سلیمان (علیہ السلام) کے عہدِ حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) نے (کوئی) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس (جادو کے علم) کے پیچھے (بھی) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت (نامی) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے یہاں تک کہ کہہ دیتے کہ ہم تو محض آزمائش (کے لئے) ہیں سو تم (اس پر اعتقاد رکھ کر) کافر نہ بنو، اس کے باوجود وہ (یہودی) ان دونوں سے ایسا (منتر) سیکھتے تھے جس کے ذریعے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ وہ اس کے ذریعے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ ہی کے حکم سے اور یہ لوگ وہی چیزیں سیکھتے ہیں جو ان کے لئے ضرر رساں ہیں اور انہیں نفع نہیں پہنچاتیں اور انہیں (یہ بھی) یقینا معلوم تھا کہ جو کوئی اس (کفر یا جادو ٹونے) کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (ہوگا)، اور وہ بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں (کی حقیقی بہتری یعنی اُخروی فلاح) کو بیچ ڈالا، کاش! وہ اس (سودے کی حقیقت) کو جانتے،
اور اگر وہ ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو اللہ کی بارگاہ سے (تھوڑا سا) ثواب (بھی ان سب چیزوں سے) کہیں بہتر ہوتا، کاش! وہ (اس راز سے) آگاہ ہوتے،
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے،
نہ وہ لوگ جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہو گئے اور نہ ہی مشرکین اسے پسند کرتے ہیں کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی اترے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے،
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے،
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے، اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگار،
(اے مسلمانو!) کیا تم چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سوالات کرو جیسا کہ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیے گئے تھے، تو جو کوئی ایمان کے بدلے کفر حاصل کرے پس وہ واقعۃً سیدھے راستے سے بھٹک گیا،
بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے،
اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو، اور تم اپنے لئے جو نیکی بھی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے حضور پا لو گے، جو کچھ تم کر رہے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے،
اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز کوئی بھی داخل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، یہ ان کی باطل امیدیں ہیں، آپ فرما دیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو اپنی (اس خواہش پر) سند لاؤ،
ہاں، جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لئے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا) اور وہ صاحبِ اِحسان ہو گیا تو اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہو گا اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے،
اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالانکہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں، پس اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں،
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے،
اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)، بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے،
اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے، حالانکہ وہ (اس سے) پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کی (خَلق اور مِلک) ہے، (اور) سب کے سب اس کے فرماں بردار ہیں،
وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ "تو ہو جا" پس وہ ہوجاتی ہے،
اور جو لوگ علم نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں فرماتا یا ہمارے پاس (براہِ راست) کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی انہی جیسی بات کہی تھی، ان (سب) لوگوں کے دل آپس میں ایک جیسے ہیں، بیشک ہم نے یقین والوں کے لئے نشانیاں خوب واضح کر دی ہیں،
(اے محبوبِ مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گی،
اور یہود و نصارٰی آپ سے (اس وقت تک) ہرگز خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار نہ کر لیں، آپ فرما دیں کہ بیشک اللہ کی (عطا کردہ) ہدایت ہی (حقیقی) ہدایت ہے، (امت کی تعلیم کے لئے فرمایا:) اور اگر (بفرضِ محال) آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس (اللہ کی طرف سے) آچکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار،
(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو اس کا انکار کر رہے ہیں سو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں،
اے اولادِ یعقوب! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر ارزانی فرمائی اور (خصوصاً) یہ کہ میں نے تمہیں اس زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی،
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو (اِذنِ الٰہی کے بغیر) کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ (اَمرِِ الٰہی کے خلاف) انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی،
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا: (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا: (ہاں! مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا،
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو،
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا: اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لئے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے،
اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے،
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے،
اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے،
اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا: (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے: میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا،
اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی (یہی کہا:) اے میرے لڑکو! بیشک اللہ نے تمہارے لئے (یہی) دین (اسلام) پسند فرمایا ہے سو تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا،
کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا: تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق (علیھم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گے،
وہ ایک امت تھی جو گزر چکی، ان کے لئے وہی کچھ ہوگا جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اور تم سے ان کے اعمال کی باز پُرس نہ کی جائے گی،
اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،
(اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں ،
پھر اگر وہ (بھی) اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم اس پر ایمان لائے ہو تو وہ (واقعی) ہدایت پا جائیں گے، اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو (سمجھ لیں کہ) وہ محض مخالفت میں ہیں، پس اب اللہ آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہوگا، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
(کہہ دو: ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو اسی کے عبادت گزار ہیں،
فرما دیں: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہ ہمارا (بھی) رب ہے، اور تمہارا (بھی) رب ہے اور ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں، اور ہم تو خالصۃً اسی کے ہو چکے ہیں،
(اے اہلِ کتاب!) کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کے بیٹے یہودی یا نصرانی تھے، فرما دیں: کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اس گواہی کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے (کتاب میں موجود) ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں،
وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، جو اس نے کمایا وہ اس کے لئے تھا اور جو تم کماؤ گے وہ تمہارے لئے ہوگا، اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا،
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے،
اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بیشک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے،
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں،
اوراگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر ایک نشانی (بھی) لے آئیں تب بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ہی ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے، (امت کی تعلیم کے لئے فرمایا:) اور اگر (بفرضِ محال) آپ نے (بھی) اپنے پاس علم آجانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو بیشک آپ (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے،
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے،
(اے سننے والے!) حق تیرے رب کی طرف سے ہے سو تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو،
اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت (مقرر) ہے وہ اسی کی طرف رُخ کرتا ہے پس تم نیکیوں کی طرف پیش قدمی کیا کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے اﷲ تم سب کو جمع کر لے گا، بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور یہی تمہارے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں،
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پا جاؤ،
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے،
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو،
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے،
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں،
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں،
جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بیشک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں،
یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں،
بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے،
بیشک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر اﷲ لعنت بھیجتا ہے (یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں،
مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں اور (حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں معاف فرما دوں گا، اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں،
بیشک جنہوں نے (حق کو چھپا کر) کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہی تھے ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے،
وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی،
اور تمہارا معبود خدائے واحد ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے،
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں،
اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے”اﷲ سے محبت“ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں، اور اگر یہ ظالم لوگ اس وقت کو دیکھ لیں جب (اُخروی) عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا (توجان لیں) کہ ساری قوتوں کا مالک اﷲ ہے اور بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے،
(اور) جب وہ (پیشوایانِ کفر) جن کی پیروی کی گئی اپنے پیروکاروں سے بے زار ہوں گے اور (وہ سب اﷲ کا) عذاب دیکھ لیں گے اور سارے اسباب ان سے منقطع ہو جائیں گے،
اور (یہ بے زاری دیکھ کر مشرک) پیروکار کہیں گے: کاش! ہمیں (دنیا میں جانے کا) ایک موقع مل جائے تو ہم (بھی) ان سے بے زاری ظاہر کردیں جیسے انہوں نے (آج) ہم سے بے زاری ظاہر کی ہے، یوں اﷲ انہیں ان کے اپنے اعمال انہی پر حسرت بنا کر دکھائے گا، اور وہ (کسی صورت بھی) دوزخ سے نکلنے نہ پائیں گے،
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،
وہ تمہیں بدی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور یہ (بھی) کہ تم اﷲ کی نسبت وہ کچھ کہو جس کا تمہیں (خود) علم نہ ہو،
اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں: (نہیں) بلکہ ہم تو اسی (روش) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں،
اور ان کافروں (کو ہدایت کی طرف بلانے) کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کسی ایسے (جانور) کو پکارے جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا، یہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں سو انہیں کوئی سمجھ نہیں،
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو،
اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
بیشک جو لوگ کتابِ (تورات کی ان آیتوں) کو جو اﷲ نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، وہ لوگ سوائے اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے کے کچھ نہیں کھاتے اور اﷲ قیامت کے روز ان سے کلام تک نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب، کس چیز نے انہیں (دوزخ کی) آگ پر صبر کرنے والا بنا دیا ہے،
یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ نے کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی، اور بیشک جنہوں نے کتاب میں اختلاف ڈالا وہ مخالفت میں (حق سے) بہت دور (جا پڑے) ہیں،
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں،
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے،
اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچو،
تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے،
پھر جس شخص نے اس (وصیّت) کو سننے کے بعد اسے بدل دیا تو اس کا گناہ انہی بدلنے والوں پر ہے، بیشک اﷲ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہے،
پس اگر کسی شخص کو وصیّت کرنے والے سے (کسی کی) طرف داری یا (کسی کے حق میں) زیادتی کا اندیشہ ہو پھر وہ ان کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو،
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ،
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں،
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اﷲ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان (کے توڑنے) کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں،
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)،
(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
اور (دورانِ جنگ) ان (کافروں) کو جہاں بھی پاؤ مار ڈالو اور انہیں وہاں سے باہر نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے اور ان سے مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) کے پاس جنگ نہ کرو جب تک وہ خود تم سے وہاں جنگ نہ کریں، پھر اگر وہ تم سے قتال کریں تو انہیں قتل کر ڈالو، (ایسے) کافروں کی یہی سزا ہے،
پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،