Quran Text Translations Spread Documents

Tahir ul Qadri


Change Log

Several fixes
Tue, 14 Sep 2010 00:38:47 -0400
-1 +1
اللہ اللہ کے نام سےشروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانےوالا ہے ‎
Major spacing and punctuation fixes
Fri, 4 Jun 2010 19:56:23 -0400
-16 +16
وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)٭ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے،٭ ہے، ٭ اس مقام پر مضاف محذوف ہے جو کہ رسول ہے یعنی یُخٰدِعُونَ اﷲَ کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ لیا گیا ہے۔ اکثر ائمہ مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے۔ بطور حوالہ ملاحظہ فرمائیں (تفسیر القرطبی، البیضاوی، البغوی، النسفی، الکشاف، المظھری، زاد المسیر، الخازن وغیرھم)۔
-143 +143
(اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں ، ہیں،
-411 +411
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو ، ہو،
-496,2 +496,2
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو ، ہو،
اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ ، کھاؤ،
-520 +520
اور اللہ تم پر مہربانی فرمانا چاہتا ہے، اور جو لوگ خواہشاتِ (نفسانی) کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑو ، پڑو،
-529 +529
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو ، ہو،
-556 +556
یہ وہ (منافق اور مُفسِد) لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ہر بات کو خوب جانتا ہے، پس آپ ان سے اِعراض برتیں اور انہیں نصیحت کرتے رہیں اور ان سے ان کے بارے میں مؤثر گفتگو فرماتے رہیں ، رہیں،
-594 +594
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ، ہیں،
-598 +598
(اے رسولِ گرامی!) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں ، بنیں،
-616 +616
(اللہ کا وعدۂ مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار ، مددگار،
-618 +618
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لئے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہو گیا) ، گیا)،
-637 +637
اے ایمان والو! مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ (نافرمانوں کی دوستی کے ذریعے) اپنے خلاف اللہ کی صریح حجت قائم کر لو ، لو،
-692,2 +692,2
ان (چند) لوگوں میں سے جو (اﷲ سے) ڈرتے تھے دو (ایسے) شخص بول اٹھے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا تھا (اپنی قوم سے کہنے لگے:) تم ان لوگوں پر (بلا خوف حملہ کرتے ہوئے شہر کے) دروازے سے داخل ہو جاؤ، سو جب تم اس (دروازے) میں داخل ہو جاؤ گے تو یقیناً تم غالب ہو جاؤ گے، اور اﷲ ہی پر توکل کرو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ، ہو،
انہوں نے کہا: اے موسٰی! جب تک وہ لوگ اس (سرزمین) میں ہیں ہم ہرگز کبھی بھی وہاں داخل نہیں ہوں گے، پس تم جاؤ اور تمہارا رب (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ، ہیں،
-827 +827
اور (اے انسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں،٭ ہیں، ٭ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اشارۃً بیان نہ کردیا ہو) پھر سب (لوگ) اپنے رب کے پاس جمع کئے جائیں گے،٭ گے، ٭ انہی مماثلتوں کے باعث انسانی ارتقاء کے باب میں ڈاروِن اور اس کے ہم نوا سائنس دانوں کو یہ مغالطہ لاحق ہوا ہے کہ شاید انسان انہی جانوروں کی ایک ارتقائی شکل ہے۔ ”أُمَمٌ أَمثَالُکُمۡ“ کے الفاط نے واضح کر دیا ہے کہ جانوروں، پرندوں اور انسانوں میں جسمانی، حیاتیاتی اور خصلتی مماثلتیں ضرور موجود ہیں اور یہ نظامِ تخلیق کی وحدت کی دلیل ہے مگر یہ سب الگ الگ طبقاتِ خلق ہیں۔ یہ درست ہے کہ انسانی حیات کا ظہور ارضی زندگی کے مختلف مراحل و ادوار کی تاریخ میں سب سے آخری دور میں ہوا ہے۔ یہ اس کے اکمل الخلق اور اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔
-938 +938
فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اﷲ ہی کی ہے، پس اگر وہ (تمہیں مجبور کرنا) چاہتا تو یقیناً تم سب کو (پابندِ) ہدایت فرما دیتا٭،٭ دیتا٭، ٭ وہ حق و باطل کا فرق اور دونوں کا انجام سمجھانے کے بعد ہر ایک کو آزادی سے اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع دیتا ہے، تاکہ ہر شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ٹھہرے اور اس پر جزا و سزا کا حق دار قرار پائے۔
-970 +970
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں) ، دوں)،
-1087 +1087
پھر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں،گھن، ٹڈیاں، گھن، مینڈک اور خون (کتنی ہی) جداگانہ نشانیاں (بطورِ عذاب) بھیجیں، پھر (بھی) انہوں نے تکبر و سرکشی اختیار کئے رکھی اور وہ (نہایت) مجرم قوم تھے،
-1142 +1142
آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصبِ رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭،٭ڈر ہیں٭، ٭ڈر اور خوشی کی خبریں بھی اُمورِ غیب میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرماتا ہے کیونکہ مِن جانبِ اللہ ایسی اِطلاع علی الغیب کے بغیر نہ تو نبوت و رسالت متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں فرمایا گیا ہے: وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِین ٍ(التکویر، ٨١: ٢٤) (اور یہ نیی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب بتانے میں ہر گز بخیل نہیں)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق غیب بتانے میں بخیل نہ ہونا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر باری تعالیٰ نے کمال فراوانی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علوم و اَخبارِ غیب پر مطلع فرمایا ہو، اگر سرے سے علمِ غیب عطا ہی نہ کیا گیا ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیب بتانا کیسا اور پھر اس پر بخیل نہ ہونے کا کیا مطلب؟ سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطلع علی الغیب ہونے کی قطعاً نفی نہیں بلکہ نفع و نقصان پر خود قادر و مالک اور بالذات عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
-1157 +1157
اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے (تو) وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے اپنی طرف سے وضع کر کے کیوں نہیں لائے؟ فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ، ہیں،
-1165 +1165
(اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لئے) باہر نکال لایا حالانکہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا ، تھا،
-1336 +1336
اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں (بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی)۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے٭ پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے،٭ گے، ٭ ایک بار جب ان کی پہچان کرا دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ کے دوران ان منافقین کو نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا، یہ پہلا عذاب بصورتِ ذلت و رسوائی تھا؛ اور دوسرا عذاب بصورتِ ہلاکت و مُقاتلہ ہوا جس کا حکم بعد میں آیا۔
-1454 +1454
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے (یعنی فرعون کو) ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا: میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں ، ہوں،
-1620 +1620
(یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بیشک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔٭ اس طرح (اس لئے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھے،٭ تھے، ٭ (یا انہوں نے بھی اس کو طاقت سے دور کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ اگر وہ اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیتے تو اپنے دفاع میں سختی کر گزرتے اور ممکن ہے اس دوران ان کا قمیض آگے سے پھٹ جاتا جو بعد ازاں ان کے خلاف شہادت اور وجہ تکلیف بنتا، سو اﷲ کی نشانی نے انہیں سختی کرنے سے روک دیا۔)
-1791 +1791
اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)٭اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا،٭ ہوگا، ٭ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد تارخ کی طرف اشارہ ہے، یہ کافر و مشرک نہ تھے بلکہ دینِ حق پر تھے۔ آزر دراصل آپ کا چچا تھا، اس نے آپ علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کے والد کی وفات کے بعد پالا تھا، اس لئے اسے عرفاً باپ کہا گیا ہے، وہ مشرک تھا اور آپ کو اس کے لئے دعائے مغفرت سے روک دیا گیا تھا جبکہ یہاں حقیقی والدین کے لئے دعائے مغفرت کی جا رہی ہے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اسے امتِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نمازوں میں بھی برقرار رکھ دیا گیا۔)
-2469 +2469
سو دونوں نے (اس مقامِ قربِ الٰہی کی لازوال زندگی کے شوق میں) اس درخت سے پھل کھا لیا پس ان پر ان کے مقام ہائے سَتَر ظاہر ہو گئے اور دونوں اپنے (بدن) پر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگذاشت ہوئی٭ سو وہ (جنت میں دائمی زندگی کی) مراد نہ پا سکے،٭ سکے، ٭ (کہ ممانعت مخصوص ایک درخت کی تھی یا اس کی پوری نوع کی تھی، کیونکہ آپ علیہ السلام نے پھل اس مخصوص درخت کا نہیں کھایا تھا بلکہ اسی نوع کے دوسرے درخت سے کھایا تھا، یہ سمجھ کر کہ شاید ممانعت اسی ایک درخت کی تھی۔)
-2802 +2802
بیشک جن لوگوں نے (عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا پر) بہتان لگایا تھا (وہ بھی) تم ہی میں سے ایک جماعت تھی، تم اس (بہتان کے واقعہ) کو اپنے حق میں برا مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر (ہوگیا) ہے٭ ان میں سے ہر ایک کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس نے کمایا، اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے،٭ ہے، ٭ (کیونکہ تمہیں اسی حوالے سے احکامِ شریعت مل گئے اور عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کی پاک دامنی کا گواہ خود اللہ بن گیا جس سے تمہیں ان کی شان کا پتہ چل گیا۔)
-2914 +2914
جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار میں پیدا فرمایا٭ پھر وہ (حسبِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا (وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)،٭ جانتے)، ٭ (ستۃ اَیّام سے مراد چھ اَدوارِ تخلیق ہیں، معروف معنٰی میں چھ دن نہیں کیونکہ یہاں تو خود زمین اور جملہ آسمانی کرّوں، کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور خلاؤں کی پیدائش کا زمانہ بیان ہو رہا ہے، اس وقت رات اور دن کا وجود کہاں تھا؟)
-3002 +3002
جب انہوں نے اپنے باپ ٭ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس چیز کو پوجتے ہو،٭ ہو، ٭ (یہ حقیقی باپ نہ تھا، چچا تھا۔ اسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش کی تھی جس کی وجہ سے اسے باپ کہا کرتے تھے۔ اس کا نام آزر ہے جبکہ آپ کے حقیقی والد کا نام تارخ ہے۔)
-3059 +3059
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ، مانگتا، میرا اجر تو فقط تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
-3228 +3228
فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا ، ہوا،
-3337 +3337
بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭،٭ ہے۔٭، ٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)
-3570 +3570
اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں وہ بات٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ (دل میں حیاءً) لوگوں (کی طعنہ زنی) کا خوف رکھتے تھے۔ (اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں (اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟)، پھر جب (آپ کے متبنٰی) زید نے اسے طلاق دینے کی غرض پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح) کے بارے میں کوئی حَرج نہ رہے جبکہ (طلاق دے کر) وہ ان سے بے غَرض ہو گئے ہوں، اور اللہ کا حکم تو پورا کیا جانے والا ہی تھا،٭: تھا، ٭: (کہ زینب کی تمہارے ساتھ مصالحت نہ ہو سکے گی اور منشاء ایزدی کے تحت وہ طلاق کے بعد اَزواجِ مطہرات میں داخل ہوں گی۔)
-4088 +4088
(اے حبیبِ مکرّم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقیناً (دائمی ہلاکت کے لئے) مردہ ہو جائیں گے (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)۔٭،٭جس ہوگا)۔٭، ٭جس طرح آیت : آیت: ٢۹ میں دی گئی مثال کے مطابق دو افراد کے اَحوال قطعاً برابر نہیں ہوں گے اسی طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اور دوسروں کی موت بھی ہرگز برابر یا مماثل نہیں ہوں گی۔ دونوں کی ماہیت اور حالت میں عظیم فرق ہوگا۔ یہ مثال اسی مقصد کے لئے بیان کی گئی تھی کہ شانِ نبوّت کے باب میں ہمسری اور برابری کا گمان کلیتہً ردّ ہو جائے۔ جیسے ایک مالک کا غلام صحیح اور سالم رہا اور بہت سے بدخو مالکوں کا غلام تباہ حال ہوا اسی طرح اے حبیبِ مکرّم! آپ تو ایک ہی مالک کے برگزیدہ بندے اور محبوب و مقرب رسول ہیں سو وہ آپ کو ہر حال میں سلامت رکھے گا اور یہ کفار بہت سے بتوں اور شریکوں کی غلامی میں ہیں سو وہ انہیں بھی اپنی طرح دائمی ہلاکت کا شکار کر دیں گے۔
-4188 +4188
پس آپ صبر کیجئے، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور اپنی اُمت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے٭ اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کیجئے،٭ کیجئے، ٭ لِذَنبِكَ میں ”امت“ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے، لہٰذا اس بناء پر یہاں وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں: ۱۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) أی لِذَنبِ أُمتِکَ یعنی اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، ۴: ۳۵۹)۔ ۲۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) قیل: لِذَنبِ أُمتِکَ حذف المضاف و أقیم المضاف الیہ مقامہ۔ ”وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کر دیا گیا۔“ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۵: ۳۲۴)۔ ۳۔ وَ قیل: لِذَنبِکَ لِذَنبِ أُمتِکَ فِی حَقِّکَ ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ لِذَنبِکَ یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزَد ہونے والی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔“ (ابن حیان اندلسی، البحر المحیط، ۷:۴۷۱)۔ ۷: ۴۷۱)۔ ۴۔ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ) قیل: المراد ذنب أمتک فھو علی حذف المضاف ” کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے۔“ ( علامہ شوکانی، فتح القدیر، ۴: ۴۹۷)
-4199 +4199
فرما دیجئے: مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اُن کی پرستش کروں جن بتوں کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی جانب سے واضح نشانیاں آچکی ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی فرمانبرداری کروں ، کروں،
-4324 +4324
سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)، اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں)(۱) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں(۲)، ۱:- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اُمّیت کی طرف اشارہ ہے تاکہ کفّار آپ کی زبان سے قرآن کی آیات اور ایمان کی تفصیلات سن کر یہ بدگمانی نہ پھیلائیں کہ یہ سب کچھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ذاتی علم اور تفکر سے گھڑ لیا ہے کچھ نازل نہیں ہوا، سو یہ اَز خود نہ جاننا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم معجزہ بنا دیا گیا۔ ۲ :- ۲:- اے حبیب! آپ کا ہدایت دینا اور ہمارا ہدایت دینا دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے اور صرف انہی کو ہدایت نصیب ہوتی ہے جو اس حقیقت کی معرفت اور اس سے وابستگی رکھتے ہیں۔
-4395 +4395
تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی،٭ گی، ٭ مفسرین کرام نے آیتِ کریمہ میں اَزوَاجُکُم کا معنی بیویوں کے علاوہ ”قریبی ساتھی“ بھی کیا ہے جیسے امام قرطبی نے تفسیر ”الجامع لاحکام القرآن (۱۶:۱۱۱ (۱۶: ۱۱۱ )“ میں، امام ابن کثیر نے ”تفسیر القرآن العظیم (۴: ۱۳۴)“ میں، اور امام شوکانی نے تفسیر ”فتح القدیر (۴ : (۴: ۵۶۳)“ میں یہ معنی بیان کیا ہے۔ اسی بناء پر یہاں اَزوَاج کا معنی بیویوں کی بجائے ”ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی“ کیا گیا ہے۔
-4564 +4564
پس جان لیجئے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ (اظہارِ عبودیت اور تعلیمِ امت کی خاطر اﷲ سے) معافی مانگتے رہا کریں کہ کہیں آپ سے خلافِ اولیٰ (یعنی آپ کے مرتبہ عالیہ سے کم درجہ کا) فعل صادر نہ ہو جائے٭ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی طلبِ مغفرت (یعنی ان کی شفاعت) فرماتے رہا کریں (یہی ان کا سامانِ بخشش ہے)، اور (اے لوگو!) اﷲ (دنیا میں) تمہارے چلنے پھرنے کے ٹھکانے اور (آخرت میں) تمہارے ٹھہرنے کی منزلیں (سب) جانتا ہے،٭ ہے، ٭ (خواہ وہ فعل اپنی جگہ شرعاً جائز اور مستحسن ہی کیوں نہ ہو مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اتنا بلند اور ارفع و اعلٰی ہے کہ کئی اعمال صالحہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لحاظ سے کمتر ہیں۔)
-4577 +4577
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت (اور ان سے جدائی کی راہ اختیار) کی اس کے بعد کہ ان پر ہدایت (یعنی عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت) واضح ہو چکی تھی وہ اللہ کا ہرگز کچھ نقصان نہیں کر سکیں گے (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت کو گھٹا نہیں سکیں گے)،٭ گے)، ٭ اور اﷲ ان کے (سارے) اعمال کو (مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باعث) نیست و نابود کر دے گا،٭ گا، ٭ تمام ائمہ تفسیر نے لکھا ہے: (لَن يَضُرُوا اللّہَ شَيْئًا) أی: لن یضرّوا رسولَ اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمشاقتہ و حذف المضاف لتعظیم شانہ۔ ملاحظہ فرمائیں: الطبری، البیضاوی، روح المعانی، روح البیان، الجمل، البحر المدید وغیرہ۔ اس اُسلوبِ کلام کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں جن میں سے ایک سورۃ البقرۃ کی آیت ۹: (یُخٰدِعُونَ اﷲَ وَالّذِینَ آمَنُوا) ہے۔ اس مقام پر یخٰدعون اﷲ (وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں) کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ (وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں) لیا گیا ہے۔
-4585 +4585
تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے اُن تمام اَفراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے٭ (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کیے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطے سے آپ کی امت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے،٭ رکھے، ٭ یہاں حذفِ مضاف واقع ہوا ہے۔ مراد ”ما تقدم من ذنب أمتک و ما تاخر“ ہے، کیونکہ آگے اُمت ہی کے لئے نزولِ سکینہ، دخولِ جنت اور بخششِ سیئات کی بشارت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون آیت نمبر ۱ سے ۵ تک ملا کر پڑھیں تو معنی خود بخود واضح ہو جائے گا؛ اور مزید تفصیل تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ جیسا کہ سورۃ المؤمن کی آیت نمبر ۵۵ کے تحت مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ ”لِذَنبِکَ“ میں ”امت“ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے۔ لہٰذا اس بناء پر یہاں وَاستَغفِر لِذَنبِکَ سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں:-۱ : کریں:-۱: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) أی لذنب أمتک یعنی اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، ۴: ۳۵۹)۔۲ : ۳۵۹)۔۲: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: لذنب أمتک حذف المضاف و أقیم المضاف الیہ مقامہ۔ ”واستغفر لذنبک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کر دیا گیا۔“ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۵: ۳۲۴)۔ ۳: وَ قیل لذنبک لذنب أمتک فی حقک ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ لذنبک یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزد ہونے والی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔“ (ابن حیان اندلسی، البحر المحیط، ۷: ۴۷۱)۔ ۴: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: المراد ذنب أمتک فھو علی حذف المضاف ”کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے۔“ (علامہ شوکانی، فتح القدیر، ۴: ۴۹۷)۔
-4783 +4783
اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں٭ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوں،٭ ہوں، ٭ اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔
-4792 +4792
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا٭،٭ ہوگیا٭، ٭ یہ معنی امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے، مزید حضرت عبد اﷲ بن عباس، امام حسن بصری، امام جعفر الصادق، محمد بن کعب القرظی التابعی، ضحّاک رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی ائمہِ تفسیر کا قول بھی یہی ہے۔
-4797 +4797
اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)٭،٭ ہو)٭، ٭ یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے۔
-4800 +4800
جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں٭،٭ تھیں٭، ٭ یہ معنی بھی امام حسن بصری رضی اللہ عنہ و دیگر ائمہ کے اقوال پر ہے۔
-4903 +4903
جس نے (خود رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھایا٭،٭ سکھایا٭، ٭ کفّار و مشرکینِ مکہ کے اِس الزام کے جواب میں یہ آیت اتری کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (معاذ اللہ) کوئی شخص خفیہ قرآن سکھاتا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، القشیری، البحر المحیط، الجمل، فتح القدیر، المظہری، اللباب، الصاوی، السراج المنیر، مراغی، اضواء البیان اور مجمع البیان وغیرھم۔
-4905 +4905
اسی نے اِسے (یعنی نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مَا کَانَ وَ مَا یَکُونُ کا) بیان سکھایا٭،٭ سکھایا٭، ٭ مفسرین کرام نے بیان کا معنی علمِ مَا کَانَ وَ مَا یَکُونُ بھی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاخطہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، جمل، المظہری، اللباب، زاد المسیر، صاوی، السراج المنیر اور مجمع البیان۔
-5027 +5027
اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (زندہ کئے جائیں گے) ، گے)،
-5054 +5054
پس میں اُن جگہوں کی قَسم کھاتا ہوں جہاں جہاں قرآن کے مختلف حصے (رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اترتے ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بیان کردہ معنی پر کیا گیا ہے، مزید حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبد اللہ بن جبیر، حضرت سدی، حضرت فراء اور حضرت زجاج رضی اللہ عنھم اور دیگر ائمہ تفسیر کا قول بھی یہی ہے؛ اور سیاقِ کلام بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ پیچھے سورۃ النجم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم کہا گیا ہے، یہاں قرآن کی سورتوں کو نجوم کہا گیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، طبری، الدر المنثور، الکشاف، تفسیر ابن ابی حاتم، روح المعانی، ابن کثیر، اللباب، البحر المحیط، جمل، زاد المسیر، فتح القدیر، المظہری، البیضاوی، تفسیر ابی سعود اور مجمع البیان۔
-5193 +5193
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ آیت عبد اللہ بن اُبیّ (رئیس المنافقین) کے بارے میں نازل ہوئی، جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بخشش طلبی کے لئے حاضر ہونے کا کہا گیا تو سر جھٹک کر کہنے لگا: میں نہیں جاتا، میں ایمان بھی لا چکا ہوں، ان کے کہنے پر زکوٰۃ بھی دے دی ہے۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ بھی کروں؟ (الطبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن)۔
-5205 +5205
یہ اس لئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول واضح نشانیاں لے کر آتے تھے تو وہ کہتے تھے: کیا (ہماری ہی مثل اور ہم جنس) بشر٭ ہمیں ہدایت کریں گے؟ سو وہ کافر ہوگئے اور انہوں نے (حق سے) رُوگردانی کی اور اللہ نے بھی (اُن کی) کچھ پرواہ نہ کی، اور اللہ بے نیاز ہے لائقِ حمد و ثنا ہے،٭ ہے، ٭ بشر کا یہ معنی ائمہ تفاسیر کے بیان کردہ معنی کے مطابق ہے۔ حوالہ جات کے لئے دیکھیں: تفسیر طبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن، جمل، مظہری اور فتح القدیر وغیرہ۔
-5284 +5284
(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے٭،٭ ہے٭، ٭ یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت کو دئیے آج تک کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)
-5339 +5339
اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی) قوت کے ذریعے (سیاہ) شگافوں٭ پر مشتمل ہو جائے گی،٭ واھیۃ .... گی، ٭ واھیۃ.... الوَھی: وَھِی، یَھِی، وَھیًا کا معنیٰ ہے: شق فی الادیم والثوب ونحوھما، یقال: وَھِیَ الثوب أی انشَقّ وَ تَخَرّقَ (چمڑے، کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں کا پھٹ جانا اور ان میں شگاف ہو جانا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے: کپڑا پھٹ گیا اور اس میں شگاف ہوگیا) .... ہوگیا).... (المفردات، لسان العرب، قاموس المحیط، المنجد وغیرہ)۔ اسے جدید سائنس نے بلیک ہولز سے تعبیر کیا ہے۔
-5379 +5379
اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ فِی یَومٍ اگر وَاقِعٍ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ جس دن (یومِ قیامت) کو عذاب واقع ہوگا اس کا دورانیہ ٥٠ ہزار برس کے قریب ہے۔ اور اگر یہ تَعرُجُ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ ملائکہ اور اَرواحِ مومنین جو عرشِ اِلٰہی کی طرف عروج کرتی ہیں ان کے عروج کی رفتار ٥٠ ہزار برس یومیہ ہے، وہ پھر بھی کتنی مدت میں منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔ واﷲ أعلم بالصواب۔ (یہاں سے نوری سال (لا‌ّّّ‎ئٹ ائیر) کے تصور کا اِستنباط ہوتا ہے۔)
-5436 +5436
اور اﷲ نے تمہیں زمین سے سبزے کی مانند اُگایا٭،٭ اُگایا٭، ٭ اَرضی زندگی میں پودوں کی طرح حیاتِ اِنسانی کی اِبتداء اور نشو و نما بھی کیمیائی اور حیاتیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے تدریجاً ہوئی، اِسی لئے اِسے اَنبَتَکُم مِّنَ الاَرضِ نَبَاتًا کے بلیغ اِستعارہ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
-5823 +5823
اور بیشک انہوں نے اس (مالکِ عرش کے حُسنِ مطلق) کو (لامکاں کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک، عکرمہ، ابو سلمہ، ضحّاک، ابو العالیہ، حسن، کعب الاحبار، شریک بن عبد اللہ اور شعبی و غیرھم رضی اللہ عنھم کے اَقوال پر کیا گیا ہے جنہیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، بغوی اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور کثیر ائمہ تفسیر نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔
-5934 +5934
(اس سے مراد) ہر وہ آسمانی کرّہ ہے (خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ یا اَجرامِ سماوی کا کوئی اور کرّہ) جو چمک کر (فضا کو) روشن کر دیتا ہے٭،٭ ہے٭، ٭ النجم الثاقب سے مراد ذاتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے، جس نے سراجاً منیراً کی شان کے ساتھ آسمانِ رسالت پر چمک کر ظلمت بھری کائنات کو نورِ ایمان سے روشن کر دیا ہے۔ (الشفاء)
-5994,3 +5994,3
اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)٭،٭ گئی)٭، ٭ مراد ہر روز کی صبح یا نمازِ فجر ہے یا بطورِ خاص ماہ ذی الحجہ کی پہلی صبح یا یکم محرم کی صبح ہے یا عید الاضحٰی کی صبح۔ اس سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی ہے جن کی بعثت سے شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی۔
اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم٭،٭ قَسم٭، ٭ مراد ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں یا پہلے عشرۂ محرّم کی راتیں ہیں یا اوّل عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں جو برکات و درجات سے معمور ہیں۔
اور جفت کی قَسم اور طاق کی قَسم٭،٭ قَسم٭، ٭ جفت (جوڑا) سے مراد کل مخلوق ہے جو جوڑوں کی صورت میں پیدا کی گئی ہے، اور طاق (فرد و تنہا) سے مراد خالق ہے جو وحدہ لا شریک ہے۔ یا شَفع یومِ نحر (قربانی) اور وَتر یومِ عرفہ (حج) ہے، یا شَفع سے مراد دنیا کے شب و روز ہیں اور وَتر سے مراد یومِ قیامت ہے جس کی کوئی شب نہ ہوگی۔ یا شَفع سے مراد سال بھر کی عام جفت راتیں ہیں اور وَتر سے مراد سال بھر کی برکت والی طاق راتیں ہیں، مثلاً شبِ معراج، شبِ برات اور شبِ قدر وغیرہ جو پے در پے رجب، شعبان اور رمضان میں آتی ہیں۔ یا شَفع سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام کا پہلا جوڑا ہے اور وَتر سے مراد تنہا حضرت آدم علیہ السلام، جن سے تخلیقِ انسانیت کی ابتداء ہوئی۔
-6025,2 +6025,2
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں٭،٭ ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ ”لا زائدہ“ کے اعتبار سے ہے۔ لا ”نفئ صحیح“ کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی٭،٭ ہوئی٭، ٭ یعنی آدم علیہ السلام کی ذریّتِ صالحہ یا آپ ہی کی ذات گرامی جن کے باعث یہ شہرِ مکہ بھی لائقِ قَسم ٹھہرا ہے۔
-6085,3 +6085,3
(اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا۔ یا- کیا اس نے آپ کو (مہربان) نہیں پایا پھر اس نے (آپ کے ذریعے) یتیموں کو ٹھکانا دیا)٭،٭ دیا)٭، ٭ اِس ترجہ میں یتیماً کو فاٰوٰی کا مفعولِ مقدّم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی۔٭،٭ دی۔٭، ٭ اِس ترجہ میں ضالاً کو فَھَدٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو (جوّاد و کریم) پایا تو اس نے (آپ کے ذریعے) محتاجوں کو غنی کر دیا۔٭،٭ دیا۔٭، ٭ ان تینوں تراجم میں یَتِیماً کو فَاٰوٰی کا، ضآلًّا کو فَھَدٰی کا اور عائِلًا کو فَاَغنٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی)
-6205 +6205
بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے٭،٭ ہے٭، ٭ کوثر سے مراد حوضِ کوثر یا نہرِ جنت بھی ہے اور قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل و معجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔ رفعتِ ذکر اور خلقِ عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرتِ الٰہیہ اور کثرتِ فتوحات بھی مراد ہیں اور روزِ قیامت مقامِ محمود اور شفاعتِ عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے۔
First version
Fri, 4 Jun 2010 19:54:20 -0400
diff --git a/trans/ur.qadri.txt b/trans/ur.qadri.txt
new file mode 100644
index 0000000..22a709e
--- /dev/null
+++ b/trans/ur.qadri.txt